• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں امن و امان اور ’’کرکٹ‘‘ سے ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سے نمٹا جاتا ہے اور اب عملی طور پر کرکٹ کا کھیل بھی وزارتِ داخلہ کے انڈر آگیا ہے۔ اب مجھے یہ پتا نہیں کہ جو کچھ پچھلے چند ماہ یا برسوں میں ہوا ہے وہ کسی ’’لندن پلان‘‘ کا حصہ ہے یا نہیں البتہ اِس لفظ سے شناسائی 70ء سے ہے، آخر ایسے ہی اس کالم کا عنوان ’’حکمرانوں کے آبائی شہر ’’لندن‘‘ سے، تو نہیں رکھا۔ اب معاملے کا ڈراپ سین کب اور کیسے ہوتا ہے اس کا تو پتا نہیں البتہ اکتوبر کا مہینہ دو آمرانہ ادوار کی یاد دلاتا ہے 27اکتوبر 1958ء اور 12اکتوبر 1999ء۔ اب اگر بات اس حد تک آگے گئی تو کسے پتا کون یہاں رہ جائے اور کون لندن چلا جائے۔

خیر اپنا لندن کا سفر جاری رکھتے ہوئے کچھ باتیں ہو جائیں۔ لندن کے دورہ کے دوران کم از کم تین سے چار مسلم چیئریٹی تنظیموں کے دفاتر کا دورہ کرنے اور اُن کے منتظمین سے بات کرنے کا بھی موقع ملا مگر پہلے کچھ باتیں برطانیہ کے مختلف شہروں میں کام کرنے والے پاکستانی صحافیوں کی۔ میں نے گزشتہ ہفتے کالم کا اختتام اس بات پر کیا تھا کہ صحافت کا حال جیسا یہاں ہے ویسا ہی وہاں ہے البتہ یہ بہت ضروری ہے کہ میڈیا کے بیورو آفس وہاں ہونے چاہئیں، محض ’’مائیک‘‘ کافی نہیں ہے۔ جتنے صحافیوں سے ملاقات رہی سب کے پاس برطانیہ کی’’ نیشنل یونین آف جرنلسٹس‘‘ کا کارڈ ہے۔ جس سے اُنہیں وہاں کام کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ تاہم اس ’’کارڈ‘‘ کے معنی یہ نہیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں اس لئے کسی کی گاڑی پر ’’PRESS‘‘ نہیں لکھا ہوتا نہ اس کی اجازت ہے و،یسے تو کسی منتخب رکن کی گاڑی پر بھی میں نے’’ ممبر پارلیمنٹ ‘‘لکھا نہیں دیکھا۔ یہ سارا کلچر تو ہمارے نصیب میں آیا ہے جہاں نمبر پلیٹ بھی نیلام ہوتی ہے۔ خیر بات ہورہی تھی برطانیہ میں کام کرنے والے اپنے ساتھیوں کی۔ مجھے کچھ ایسا تاثر بھی ملا کہ وہاں بھی اچھے خاصے’’گروپس‘‘ موجود ہیں۔ میں نے وہاں بھی مختلف تقریبات اور صحافی دوستوںسےملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ انہیں ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانا چاہئے۔ ایک یونین آف جرنلسٹس بنانی چاہئے مگر سب سے بنیادی کام پہلے اپنی پہچان اپنی خبروں کے ذریعہ بنانی چاہئے ۔اگر این یو جے ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ وہاں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں مگر وہاں کوئی ’’کالا قانون‘‘ بھی نہیں۔ جب تک وہاں رہا مجھے ’’X‘‘ یا ٹوئٹر استعمال کرنے میں کسی ’’VPN‘‘ کی ضرورت نہیں رہی یہ یہیں ہوسکتا ہے کہ اسے استعمال کرنے کیلئے آپ کو غیرقانونی کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی ابتدا خود وزیراعظم سے ہوتی ہے۔

اب آتے ہیں اُن تنظیموں کی طرف جو مسلم چیئریٹی کے نام سے سوشل ویلفیئر کا کام کررہی ہیں کوئی تعلیم کے شعبے میں، کوئی صحت کے شعبے میں اور کسی نے کئی ’’اوپن کچن‘‘ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر ضرورت مندوں کے کھانا کھلانےکا اور کپڑوں وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ اس میںمسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کو لوگ خطیر رقم بھی عطیات کی شکل میں دیتے ہیں۔ اُن کے منتظمین نے بڑی تفصیل سے اُن کاموں کی طرف اشارہ کیا جو وہ مختلف شعبوں میں نہ صرف برطانیہ میں بلکہ دیگر ممالک بشمول پاکستان انجام دے رہے ہیں۔مسلم ہینڈ کی طرح المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ جس کا تعلق ہمارے معتمد سیاستدان حاجی حنیف طیب صاحب سے بھی ہے، بڑے پیمانے پر ویلفیئر کا کام کر رہا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں۔ جب اس ٹرسٹ کی انتظامیہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے دفاتر کا دورہ بھی کروایا اور کاموں کی تفصیل بھی بتائی، خاص طور پر تعلیم کے شعبہ میں۔ اسی طرح ایک تنظیم کا ذکر کروں گا مسلمانوں میں انتہاپسندانہ رجحانات اور لندن میں حال ہی میں ہونے والے فسادات کے حوالے سےانہوں نے پاکستان، عراق اوردیگر ممالک میں بھی کام کیا ہے اور یو کے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر خود برطانیہ میں قید بہت سے قیدیوں میں بھی ریفارمزکا کام کررہے ہیں۔ میں 26ستمبر کو کراچی واپس پہنچا تو میرا استقبال اُسی ٹریفک کے شور شرابے، ٹوٹی ہوئی سڑکوں، بے ہنگم فلائی اوورز، بے ربط پارکنگ اور سڑکوں، فٹ پاتھ پر تجاوزات نے کیا اور پھر ہر طرح کے ’’ہارن‘‘ ۔میں نے دل ہی دل میں کہا ’’میاں ویلکم ٹو پاکستان ویلکم ٹو کراچی۔‘‘ ایسا لگا کہ آپ کسی خواب سے بیدار ہوئے ہوں۔ واپس وہی آلودگی، کچرے کے ڈھیر اور وہی سیاست اور وہی میڈیا۔ سوچتا ہوں کہیں ہمارا یہ حال اس لئے تونہیں کہ یہاں کے ہر طرح کے ’’حکمرانوں‘‘‘ اور اشرافیہ نے کبھی پاکستان کو اپنا ملک سمجھا ہی نہیں۔ جن کے آبائی شہر ’’لندن‘‘ ’’پیرس‘‘ نیویارک ، برلن یا پھردبئی ہوں اور وہ سب اِس لئے ہوں کہ زیادہ تر کے پاس دوہری شہریت ہے اور یہ جو شہر کراچی ہے وہ ان سب کیلئے ’’سونے کی چڑیا‘‘ ہے یہ تباہ حال رہے گا تو لندن اور دیگر شہر اِن کے آبائی علاقے کہلائیں گے۔ برسوں پہلے حمایت علی شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا

ابھی تو کچھ نہیں ہوا ، ابھی تو ابتدا ہے یہ

اور اب وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی

پاکستان کیلئے بڑا سبق ہے وہاں کا پارلیمانی نظام اور بلدیاتی نظام ۔ ہر قوم کی تاریخ عروج و زوال سے بھر ی پڑی ہے اور وہی قومیں آگے جاتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ ایک دوست نے تنقیدی انداز میں کہا ’’یہاں دنیا بھر کے کرمنلز بھرے پڑے ہیں اور یہ پناہ دیتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا، درست مگر وہ جرائم وہاں کرکے آتے ہیں یہاں کوئی جرم کیوں نہیں کرتے۔ آپ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کریں۔ خیر یہ بحث تو چلتی رہے گی اصل سبق یہ ہے کہ ہم اگر ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنتے تو ہم ایک مضبوط جمہوری نظام بھی نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی، حکمرانوں کا قانون نہیں۔ تعلیم اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہوتی جس کے ذریعے جمہور کا خیال رکھا جاتا۔ وہاں مضبوط بلدیاتی نظام ہے اور پچھلی تین ٹرمز سے ایک مسلمان لندن کا میئر ہے۔ اگر ایسا نظام یہاں ہوتا تو ’’لندن‘‘ اِن حکمرانوں کا آبائی شہر نہ ہوتا۔

تازہ ترین