کسی شہر میں دو عالم رہتے تھے دونوں بہت ہی قابل سمجھے جاتے تھے لیکن نظریاتی اختلاف کے باعث دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک خدا پرست تھا اور دوسرا خدا کا منکر تھا۔ایک دن دونوں کے درمیان خدا کے وجود پر بحث ہو گئی۔گھنٹوں بحث کے باوجود یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے کون جیتا اور کون ہارا، خدا کا منکر عالم بحث چھوڑ کر سیدھا عبادت خانے میں گیا اور سجدے میں گر کر خدا سے معافی مانگی اور خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا۔خدا پرست عالم نےگھر پہنچ کر اپنی سب کتابیں جلا دیں کیونکہ وہ خدا کا منکر بن چکا تھا۔ دونوں کی زندگی میں انقلاب آ چکا تھا اس حکایت کا بانی خلیل جبران ہے ۔خلیل جبران کا تعلق لبنان سے تھا اس نے اپنی زندگی میں بہت سی کتابیں لکھیں جو آج بھی بہت مقبول ہیں۔خلیل جبران کو عربی کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے ۔ شیکسپیئر لمبے لمبے ڈرامے لکھتا تھا لیکن خلیل جبران چھوٹی چھوٹی حکایتوں اور افسانوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا تھا۔وہ ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوا لیکن مذہب کی بنیاد پر نفرت کی بجائے محبت پھیلانے پر یقین رکھتا تھا۔خلیل جبران نے 1923ء میں عربی میں ایک کتاب ’’النبی‘‘ لکھی جس کا انگریزی میں THE PROPHETکے نام سے ترجمہ ہوا۔اس کتاب کے ذریعہ اس نے مذہبی رواداری اور آفاقیت کا پیغام دیا اس نے صرف اڑتالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔افسوس کہ خلیل جبران لبنان میں دفن تو ہو گیا لیکن اسکی سوچ لبنان کی پہچان نہ بن سکی۔خلیل جبران کی وفات کے بعد سے آج تک لبنان مذہبی اور فرقہ وارانہ لڑائیوں کا شکار رہا ہے۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد لبنان میں خانہ جنگی اور بحران اسرائیل کی مستقل ضرورت بن گیا کیونکہ فلسطینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد لبنان میں آباد ہو گئی۔یہ فلسطینی اسرائیل کیلئے خطرہ تھے اور لبنانی عرب ان فلسطینیوں کی مدد کرتے تھے لہٰذا اسرائیل نے پہلے فلسطینیوں کو لبنانیوں سے لڑایا پھر لبنانیوں کو بھی آپس میں لڑا دیا۔طویل عرصے کے بعد لبنانی عرب مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات بھلا کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ جب سے لبنان آیا ہوں تو روزانہ خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کا حملہ پسپا کر دیا گیا۔ بظاہر اسرائیل کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت حزب اللہ کر رہی ہے لیکن حزب اللہ کی اس مزاحمت کے پیچھے لبنانی عربوں کا مسلم مسیحی اتحاد اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ لبنان میں خلیل جبران کا خواب حقیقت بن رہا ہے لیکن خواب کو تکمیل سے قبل توڑنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔اسرائیل لبنان کی شیعہ آبادی کو زیادہ نشانہ بناتا ہے ۔سنی اور مسیحی آبادی کو کم نشانہ بناتا ہے حالانکہ جنوبی لبنان کے مسیحی بھی اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ لبنانی عربوں کو ایک دفعہ پھر مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔اسرائیلی بمباری کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ لبنان کی حکومت اور فوج اتنی مضبوط نہیں کہ ان لاکھوں متاثرین کو سنبھال سکے۔یہ متاثرین قدرے محفوظ علاقوں میں کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو ٹھنڈا کر دیا جائے تو ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔عام لبنانیوں پر دبائو بڑھانے کیلئے اسرائیل کی طرف سے ڈرون ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جا رہی ہے ۔
پچھلے تین چار دنوں میں مجھے بیروت کے علاوہ طرابلس اور الصیدا سمیت لبنان کے مختلف علاقوں میں متاثرین جنگ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔آپ کسی بھی وقت کہیں بھی متاثرین سے بات کریں انکی نظریں بار بار آسمان کی طرف اٹھتی ہیں ٹیکسی والا بھی گردن گھما گھما کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسرائیلی ڈرون کافی نیچی پرواز کر رہا ہے۔ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اسرائیلی ڈرون لبنان کی فضا کا ایک مستقل کردار بن گیا ہے جو دن رات پرواز کرتا ہے اور اسکی آواز سے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں ۔یہ ڈرون ان علاقوں میں بھی پرواز کرتا ہے جہاں مسیحیوں کی اکثریت ہے ۔ایک پاکستانی کو جب اسرائیلی ڈرون کی یہ فضائی غنڈہ گردی بار بار نظر آتی ہے تو پھر اسے اپنی ایئرفورس یاد آ جاتی ہے جس نے 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے اس کے کئی طیارے تباہ کر دیئے تھے۔ اگر اس طرح کا ڈرون پاکستان بھیجا جائے تو چند لمحوں میں تباہ ہو جائے گا۔اسرائیلی ڈرون کی مستقل گڑگڑاہٹ سن کر پاکستان ایئر فورس کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے جو پاکستان کی فضا میں داخل ہونے والے دشمن کے طیارے کو فوراً گرا دیتی ہے اور طیارے سے پیرا شوٹ کے ذریعہ جمپ کرنے والے پائلٹ کو چائے پلا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔ قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے اپنے کردار کو صرف قومی سلامتی تک محدود رکھیں تو اپنے آپ کو اس تنقید سے محفوظ رکھ سکتے ہیں جو انکی سیاست میں مداخلت سے جنم لیتی ہے۔ بیروت میں ان دنوں بہت سے مغربی صحافی موجود ہیں جو یوکرائن کی جنگ کو رپورٹ کرکے خود کو بڑے ماہر جنگی نامہ نگار سمجھتے تھے۔ لبنان کی جنگ نے ان کے ہوش اڑا دیئے ہیں کیونکہ عام لبنانی ہرمغربی صحافی کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ۔یہ متاثرین جنگ کو اعتماد میں لئے بغیر انکی فلمنگ شروع کرتے ہیں تو ان کے کیمرے توڑ دیئے جاتے ہیں۔ بلجیم کے ایک صحافی کو جنوبی بیروت میں بغیر اجازت فلمنگ سے روکا گیا وہ باز نہ آیا تو اسکی ٹانگ میں گولی مار دی گئی۔مغربی صحافیوں کی اکثریت جب زمینی حقائق کو سمجھے بغیر رپورٹنگ کرتی ہے تو عوامی ردعمل کا نشانہ بنتی ہے ۔یہ ردعمل انہیں خلیل جبران کی یاد دلاتا ہے جو آج بھی مغرب میں بہت مقبول ہے مغرب کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر خلیل جبران کے دیس میں امن قائم نہ ہوا تو یہاں سے شروع ہونے والی بدامنی پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے۔ خلیل جبران کے دیس کا المیہ ایک عالمی المیہ بن سکتا ہے۔