• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر دنیا بھر کے امیر ترین افراد کی فہرست دیکھی جائے تو پہلے پانچ سو افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکا سے نظر آئے گا، امریکا افراد کے بزنس کو پھیلنے دیتا ہے، اس میں رکاوٹیں نہیں ڈالتا، امریکی ریاست اپنے باصلاحیت کاروباری افراد کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے نہ کہ ان کے پیچھے پڑتی ہے۔ ہیوسٹن میں بیٹھا ہوا شخص پاکستان کیلئے بے چین تھا، وہ امریکا میں کاروباری اعتبار سے کامیاب آدمی ہے مگر اس کا دل پاکستان کیلئے خون کے آنسو روتا ہے، وہ کہنے لگا’’میں نے ایک فقرہ بولا ہے کہ امریکی ریاست اپنے باصلاحیت اور کامیاب کاروباری افراد کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے، پیچھے نہیں پڑتی، آپ نے اس پر کچھ نہیں کہا‘‘۔ اس نے مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھا تو میں نے عرض کیا، میں آپ کی گفتگو میں اتنا محو ہو گیا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستان سے کس طرح دماغ دنیا میں ہجرت کر گئے؟ کیسے پاکستان کا باغ اجڑ گیا؟ اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا’’ رکیئے صاحب! میں نے جس فقرے پہ توجہ کی درخواست کی تھی وہی فقرہ پاکستان کے گلستاں کی بربادی کی علامت ہے کیونکہ پاکستان میں ریاست اپنے کامیاب اور باصلاحیت افراد کے پیچھے کھڑی نہیں ہوتی بلکہ بری طرح ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے‘‘۔ اس نے مجھے پھر سے متوجہ کر کے کہا ’’ سنیے صاحب! پھر سے سنیے، پاکستان میں ریاست اپنے کامیاب اور باصلاحیت افراد کے پیچھے اس طرح پڑتی ہے کہ باہر آ کر بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی‘‘۔ میں نے عرض کیا وہ کیسے ؟ اس نے کہا ’’ دیکھیے صاحب! دنیا کے مختلف ملکوں کے سفارت خانے اپنے اپنے ملکوں کیلئے کام کرتے ہیں اور پاکستانی سفارت خانے کے افراد پاکستانیوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں، کون کیا کر رہا ہے؟ کدھر جا رہا ہے؟ کس کو مل رہا ہے؟ بس ان کا یہی کام ہے، ایسا لگتا ہے جیسے پاکستانی سفارت خانے پاکستان کیلئے کم اور خفیہ والوںکیلئے زیادہ کام کرتے ہیں، آپ کو پتہ ہے اب ہم امریکا میں بھارتی بزنس کمیونٹی کے سامنے سر جھکا کے بیٹھتے ہیں، دو سال پہلے ہم سینہ تان کے بیٹھتے تھے کیونکہ دو اڑھائی سال پہلے پاکستان میں ایک ایسے شخص کی حکمرانی تھی جس کے سامنے دنیا کے بہت سے حکمران بونے تھے اور وہ بڑے بڑے ملکوں کے حکمرانوں کو مات دینے کی صلاحیت رکھتا تھا، وہ صرف پاکستان کیلئے سوچتا تھا، اس نے پاکستان کو معیشت کے عمدہ راستوں پہ ڈال دیا تھا، اب پتہ نہیں پاکستان میں کن لوگوں کی حکمرانی ہے؟ ایسا لگتا ہے ان کی پاکستان سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ؟ میری نظر میں پاکستانی سفارت خانے پاکستان اور پاکستانیوںکیلئے کچھ بھی نہیں کر رہے، دیکھیے صاحب! بھارت ہمارا دشمن ہے مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ بھارتی سفارت خانے بھارت اور بھارتیوں کے کام کرتے ہیں، وہ یہ کام تو نہیں کرتے کہ کون کس سے مل رہا ہے؟ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ ابھی امبانی کے ہاں شادی تھی، بھارتی سفارت خانے کے کمرشل اتاشی نے اتنا کام کیا کہ کمال کر دیا، وہ ستر سے زائد بڑے امریکی بزنس مینوں کو بھارت لے جانے میں کامیاب ہو گیا، وہ بزنس مین بظاہر شادی میں گئے مگر حقیقت میں وہ بھارتی حکومت کے مہمان تھے، مودی کی ہدایت پر سرکاری اہلکاروں نے ان امریکی بزنس مینوں پر زیادہ توجہ مبذول کی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں سے بہت سے بزنس مینوں نے بھارت کے اندر سرمایہ کاری کی اور کچھ نے بھارت میں کاروبار شروع کر دیا‘‘۔ صاحب! امریکی کاروباری افراد ٹرمپ کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ امریکا اور امریکیوں کیلئے سوچتا ہے۔ کیا پاکستان میں عمران خان اس لئے پابند سلاسل ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوںکیلئے کیوں سوچتا ہے؟ عمران خان کا یہی جرم ہے کہ وہ وطن پرست ہے، وہ اپنے وطن کیلئے سب سے پہلے سوچتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا تھا کہ جب عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے صرف اپنے ملک کی خودمختاری اور آزادی کی بات کی۔ شاید یہی باتیں عمران خان کے وطن میں جرم گردانی جاتی ہوں، مغربی دنیا کیلئے تو اس کا ایک جملہ ہی کافی تھا کہ ’’ہمارے دلوں میں ہمارے نبی محمد ﷺ بستے ہیں‘‘۔ اس جملے نے جہاں مغربی دنیا کو پریشان کیا تھا وہاں مسلمان دنیا کے چھوٹے چوہدری بھی گھبرا گئے تھے، شاید پاکستانی نظام بھی اسی میں شامل ہے، اسی نظام سے تو آج کے پاکستان کا نوجوان ڈی چوک میں لڑ رہا ہے کیونکہ اس نوجوان کا لیڈر اقبال کا یہ شعر اکثر پڑھتا ہے کہ

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

تازہ ترین