• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیاقت باغ، شہادت سے قبل آخری خطاب کا منظر
لیاقت باغ، شہادت سے قبل آخری خطاب کا منظر

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے 1996ء میں لیاقت علی خان کے تحریک آزادی کے کردار پر ڈاکٹر ایس ایچ ایم جعفری (1938ء تا 2019ء) کی زیرنگرانی ڈاکٹریٹ کیا، جو انگریزی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر (جامعہ کراچی) اور پھر اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس (کراچی) سے شایع ہوا۔ 

اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ’’ لیاقت علی خان بہ حیثیت وزیراعظم پاکستان‘‘ کا موضوع دستاویز نہ ملنے کے سبب چھوڑا۔ وہ لیاقت علی خان سے ہمارےدانش وروں کے عمومی سلوک پر شدید نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لیاقت علی کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ قرارداد مقاصدپر سرش چندر اوپادھیا کے اعتراض کے جواب میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ عوام ہی کو اصل اختیار حاصل ہے۔

ان کے بہ قول ،پاکستان بنا تو سب کہتے تھے کہ چھ ماہ میں دیوالیہ ہو جائے گا، پھر یہ بھی تصوّر تھا کہ مسلمان کاروبار نہیں کر سکتا، لیکن لیاقت علی خان نے تو یہ ملک ایسا چلایا کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد اپنی کرنسی کی قدر کم کی، ہندوستان نے بھی کی۔ لیکن پاکستان نے انکار کیا، جس پر پاکستان کےسِکّے کی قیمت ہندوستان سے زیادہ ہوگئی۔

مشرقی بنگال میں ’’پٹ سن‘‘ اگتی تھی، لیکن اس کے سارے کارخانے مغربی بنگال میں تھے۔دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ تقسیم کے بعد بحران پیدا ہوا، تو لیاقت علی خان ڈھاکا گئے اور کاشت کاروں سے کہا کہ اگر کوئی آپ سے فصل نہیں خریدتا، تو حکومت پاکستان خرید لے گی، آپ مغربی بنگال ہر گز نہ بھیجیے۔ چناں چہ انہوں نے وہاں اپنی پٹ سن بنا کر بیچی، دوسری جانب مغربی بنگال کی پٹ سن کی صنعت تباہ ہوگئی۔

شہیدِ مِلّت کے دورۂ امریکا کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ راجا غضنفر، ایران میں پاکستان کے سفیر تھے۔ لندن میں پرائم منسٹرز کانفرنس سے لوٹتے ہوئے جب لیاقت علی خاں کا طیارہ تہران میں رکا تو ایران میں روسی سفیر کے ذریعے انہیں دورے کی دعوت دی گئی۔ لیاقت علی نے کہاکہ ہم تمام دنیا سے خیرسگالی چاہتے ہیں۔ انہیں پروگرام کے مطابق 18 اگست 1949ء کو روانہ ہونا تھا، لیکن روس نے تاریخ قبل ازوقت15اگست کو کردی۔ یعنی بہ جائے آگے کی تاریخ دینے کے تین روز جلدی بلایا۔

دوسری بات یہ تھی کہ وہ قائدِاعظم کے بعد ہمارا پہلا یومِ آزادی تھا۔ اس لیے بھی قائدِ مِلّت کی ملک میں موجودگی ضروری تھی۔اس دوران امریکا سے دعوت نامہ آگیااور وہاں جاتے ہوئے بھی لیاقت علی نے صحافیوں کو جواب دیا کہ جب وہ (روس) تاریخ مقرر کریں گے تو چلا جاؤں گا۔ امریکا پہنچ کر بھی انہوں نے یہی جواب دیا۔ پھر واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر پوچھا گیا کہ کشمیر کے لیے روس کی مدد کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے کہا کہ میں توتیّار ہوں۔

لیاقت علی نے دورے کی نئی تاریخ کے حوالے سے کہا کہ یہ ہمارا یومِ آزادی ہے، ہم نے اُن سے دوسری تاریخ مانگی ہے۔ لیکن انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا، جیسے ہی تاریخ آئے گی روانہ ہوجاؤں گا۔

ڈاکٹر رضا کاظمی کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ لیاقت علی ناتجربے کار تھے۔ وہ تو اتنے ماہر تھے، کہ متحد ہندوستان کا بجٹ بغیر سیکریٹری کے پیش کیاتھا۔