مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملے پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید کی زیرِ صدارت اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔
اجلاس کے دوران جے یو آئی نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا۔
آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے۔
حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولہ سیاسی جماعتوں سے ساتھ شیئر کر دیا۔
وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی، حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔
مجوزہ ترمیم نے کہا کہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا۔
حکومت جے یو آئی کی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے، خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں حکومتی جماعتیں ایک پیج پر آگئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترامیم کے 56 نکاتی مسودہ پر پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کی۔
مولانا فضل الرحمٰن کو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کا حصہ بنایا جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر بھی ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں کا شکوہ کیا۔
وفاقی وزیر قانون نے اپوزیشن لیڈر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی ترمیم پر تجویز دیں یہ معاملہ بعد کا ہے۔
پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اجلاس میں مختلف جماعتوں کے مسودوں پر غور کے لیے ذیلی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور کمیشن کا فرق ہے، پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اُمید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گی۔
اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے پی ٹی آئی کے 15 تاریخ کے احتجاج کے اعلان پر اظہار تشویش کیا۔
کمیٹی ارکان نے کہا کہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف ترمیم کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں اور دوسری طرف انتشاری سیاست۔
جس پر پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے، حکومت نے فسطائیت کی انتہا کر دی ہے،
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمارے کارکنوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، پی ٹی آئی کسی منفی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
عمر ایوب کا کہنا ہے کہ ہم آئینی ترمیم پر اپنا مؤقف کھل کرپیش کریں گے، اُمید ہے ہمیشہ کی طرح ہماری آواز نہیں دبائی جائے گی۔
نیشنل پارٹی کے جان محمد بلیدی، وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کا وفد بھی اجلاس میں شریک تھا۔
پی ٹی آئی کے وفد میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب اور دیگر افراد شامل تھے۔
ایم کیو ایم کے فاروق ستار، پیپلز پارٹی کے نوید قمر، راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمٰن بھی خصوصی اجلاس میں شریک تھے۔
ذرائع کے مطابق جے ہو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اوربلاول بھٹو زرداری نے آج کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پر تحفظات کا ابھی تک نہیں کہا، جب جماعت اسلامی کہے گی تو دیکھیں گے۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑنے خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گفت و شنید سے معاملات حل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے فریم ورک میں مذاکرات ایک ماہ سے چل رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ آج ہماری طرف سے کمیٹی میں کوئی مسودہ پیش نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دیکھیں گے حکومت آج کن معاملات پر بات کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بلاول بھٹو سے کہا مسودہ شیئر کر کے متفقہ مسودہ تیار کریں گے، معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے مثبت اُمید رکھنی چاہیے، ترمیم کسی شخص سے متعلق تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں پی ٹی آئی کی نمائندگی ہے، ان کے چیئرمین ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں، وہ بانیٔ پی ٹی آئی سے بات کرنا چاہیں تو اچھی بات ہے، وہ بہتر سمجھتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کسی اصول پر نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیم کی حمایت کے سوال پر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم نے اب تک آئینی ترمیم کا مسودہ ہی نہیں دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو آئینی اصلاحات لائی جا رہی ہیں وہ سیاسی ضرورتوں کو دیکھ کر لائی جا رہی ہیں، اگر پی ٹی آئی حکومت میں ہوتی تو وہ بھی اسی قسم کی آئینی ترمیم لاتی۔
فاروق ستار کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اصولی طور پر آئینی عدالت اور ججوں کی تقرری میں پارلیمان کا کردار بڑھانے پر متفق ہے۔