اس کائنات و زمین پر اس سے بڑھ کر جہالت اور حماقت کوئی نہیں کہ سوائے پیغمبروں کے ، پاک ہستیوں کے کوئی انسان خواہ مخواہ ہی خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگے بلکہ دوسروں کو بھی یہ سمجھانے اور منوانے لگے کہ بس میں ہی ایک عقلِ کُل ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر جہالت و نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ سماج کی ایک اکثریت کسی عقل کے اندھے کو عقلِ کُل جاننا اور ماننا شروع ہو جائے اور اس کے ارشادات کی روشنی میں چلنے کا چلن بھی بنا ڈالے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک طویل دھرنے کے دوران جس کسی بھی صحافی یا نیم صحافی نے کسی کاغذ کے ٹکڑے پر جو کچھ بھی لکھ کر دے دیا اسے من و عن مان لیا اور بیان بھی کر دیا اور لگا دیے ایسے ایسے الزامات بھی جن کا کوئی سر تھا نہ پیر ، پھر جب اس ’’عقلِ کل ‘‘سے جنگ و جیو کے سینئر صحافی حامد میر نے اپنے پروگرام میں پوچھ لیا کہ یہ جو آپ کی پینتیس پنکچر جیسی ٹرمز ہیں ،اس ضمن میں کچھ وضاحت فرمانا پسند فرمائیں گے ۔؟جواباً فرمانے لگے کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا لیکن اس کے باوجود عقل ِکُل ماننے والے باز نہیں آئے حتیٰ کہ موصوف عقل ِکُل نے بذات خود مان بھی لیا اور یہ اعلان بھی کر دیا کہ جی ہاں میں نے توشہ خانہ کی گھڑی بیچی ہے بالکل بیچی ہے ، میری گھڑی میری مرضی مگر پیروکاروں کو اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑا’’انصافین‘‘ ڈٹے رہے ہٹے نہیں اور بدلے بالکل بھی نہیں ۔ پرانی بات ہے کہ ان عقلمندوں نے ایکس پہ یعنی ٹویٹر پہ توبہ توبہ ، کپتان چپل اور مولانا فضل الرحمٰن کی تصویر ڈال کر ان کے مابین مقابلہ کرایا تھا ، کپتان چپل کے باجے بجائےگئے اور مولانا فضل الرحمٰن کو حسب عادت گالیوں کے نذرانے پیش کیے جا رہے تھے ، میں نے کمنٹ میں لکھا کہ صد افسوس و ماتم کے آپ غیر اخلاقی حرکت کر رہے ہیں تو پھر یہ مجھ پہ بھی تنقید کرتے رہے جو وطیرہ ہے ان کا ۔ ان کی سوچیں میں نہ مانو جیسی ہیں ، چیف جسٹس آف پاکستان کو آخر یہ کیوں کہنا پڑا کہ’’سوشل میڈیا پر لائکس لینے کیلئے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے‘‘مجھے ان جمہوریت پسندوں کی یہ سوچ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ سیاستدان ہو کر سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر بات تک نہیں کر سکتے اور علانیہ اداروں کو دعوت دے رہے ہیں کہ آپ بلائیں اور ہم سے مذاکرات تو کریں پلیز آپ ہم سے کوئی بات تو کریں ۔ ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی خود ہی دعوت دے کر بھلا کیسے بڑا لیڈر اور کوئی فکری و جمہوری رہنما کہلا سکتا ہے ۔ جناب عمر ایوب کے دادا حضور سابق صدر و جنرل مرحوم ایوب خان نے مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ”آج تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ آخر سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے۔؟ مولانا مودودی نے برملا جواب دیا کہ یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے نا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ آخر فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔؟ ‘‘ جنرل ایوب خان خاموش رہ گئے اور پوری محفل زعفران زار بن گئی ۔ اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں تحریک انصاف کی غیر حاضری نہ صرف عوام کو بلکہ خاص و عام تمام کو انتہائی نامناسب محسوس ہوئی ہے ، پی ٹی آئی اپنے اس رویے کا قابل قبول جواز شاید کبھی پیش نہیں کر پائے گی ، سبھی جماعتیں اور بالخصوص تحریک انصاف کی حلیف جماعتیں اپنے اتحادیوں کی اس عدم شرکت پر حیرت زدہ ہیں لیکن میں حیرت زدہ نہیں ہوں کیونکہ عقلِ کُل جو ہوئے ، محسن بھوپالی کے الفاظ میں :
وہ عقل ِکُل تھا بھلا کس کی مانتا محسن
خیالِ خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا
ن لیگ کے مقابلے میں میرا ووٹ اور سپورٹ ہمیشہ ہی PTI کے ساتھ رہے مگر مجھے اس بات کا دلی دکھ ہے اور رہے گا کہ یہ اس قومی کانفرنس میں کیوں نہیں گئے کیونکہ میری رائے میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہی نہ ہونا کسی طور پہ بھی مناسب عمل نہیں ہو سکتا ۔ ہم اہل پاکستان کیا کریں ، کس کس کو روئیں ، مشکل تو یہ بنی ہوئی ہے کہ ہمیں دوسری جانب بھی تو کوئی امید نظر نہیں آتی کوئی روشنی نظر نہیں آتی ، چہار سو مایوسیاں ، محرومیاں اور تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں ۔لاجواب و نایاب صنف ِسخن رباعی کے عہدِ موجود میں دبنگ و سر بلند استاد شاعر برادرم نصیر زندہ جی مدظلہ کے الفاظ میں :
حاکم کے سر میں کان بہرے نہ لگاؤ
قوموں کی انا پہ زخم گہرے نہ لگاؤ
ایسے نہ چڑھاؤ سورج کو سولی پر
آوازِجنوں پہ چُپ کے پہرے نہ لگاؤ