کینیڈا کی طرف سے سنگین الزامات کے حوالے سے6بھارتی سفارت کاروں کی ملک بدری کے اقدام اور نئی دہلی کی طرف سے احتجاجاً اپنے سفیر کو واپس بلانے کے اعلان سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی بڑھی نظر آتی ہے۔ یہ کشیدگی16ماہ قبل جون2023ءمیں اس وقت شروع ہوئی جب کینیڈا کے شہری اور خالصتان تحریک کے رہنما ہر دیپ سنگھ کو وینکوور میں گوردوارے کے باہر قتل کردیاگیا تھا۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ اس قتل میں بھارتی ایجنٹس کے ملوث ہونے کے حوالے سے الزامات ٹھوس نوعیت کے ہیں۔تاہم بھارت نے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کینیڈا پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لئے انتہا پسندوں کو پناہ دے رہا ہے۔ کینیڈین ذرائع کے بموجب ملک بدر سفارت کار بھارتی حکومت کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے ارکان، بالخصوص خالصتان تحریک کے حامی کارکنوں کے خلاف ’’تشدد کی مہم‘‘ میں ملوث تھے۔ کسی بھی ملک کی جانب سے دوسرے ملک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قتل کی واردات کرانا یا اپنے سفارتی عملے کو کسی’’ تشدد کی مہم‘‘ میں ملوث ہونے کی اجازت دینا ایسی سرگرمی ہے جسے کوئی میزبان ملک برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ عمل بین الاقوامی سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی تو ہے ہی ، ایسے ملک کی طرف سے کیا جانا بہت ہی قابل اعتراض ہے جو دوسروں پر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگاتا رہاہو۔ عالمی برادری کواس نوع کے جرائم کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ مختلف ممالک میں جاکرآباد ہونے والے افراد اور شہریت دینے والے ملک، دونوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ہر ملک کے اپنے قوانین اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں وہاں سفارتکار، مہمان یا کسی دوسری حیثیت سے رہنے والوں کو ایسے طرز عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی جواس ملک کے نظم وضبط اور قوانین کے منافی ہو۔