فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار ایک سخت اور پُرعزم جنگجو شخصیت کے مالک تھے، جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔
19 اکتوبر 1962 کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحییٰ ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔
یحییٰ السنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011 میں شالت (اسرائیلی فوجی کی رہائی) ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحییٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔
حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔
ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔
یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔
انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا تھا، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے تھے اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے تھے۔
اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے تھے اور ان کی تلاش اسرائیل کےلیے ایک اولین ترجیح بن گئی تھی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے تھے۔
یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا۔
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو اپنے مقاصد کے حصول کےلیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے ابتدائی تین ہفتوں کے بعد یحییٰ السنوار نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ یرغمال بنائے گئے تمام اسرائیلیوں کے بدلے قید بنائے گئے تمام فلسطینیوں کو رہا کر دیا جائے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حماس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا جس کا نقصان انہیں مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور فوجی گاڑیوں کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔