کوئی بیس برس ہوئے، انڈیا کی ورکنگ ویمن کا ایک وفد پاکستان آیا تھا ۔ا سلام آبادمیں بھی ڈیڑھ دن گزارا۔ لاہور جاتے ہوئے انہوں نے کہا ہائے کتنی صاف اور خالی سڑکیں ہیں۔ ہم لوگوں نے بتایا کہ آبادی کم ہے اور اتوارہے ۔ اسلئے لوگ گھروں میں ہیں۔ یہ وضاحت مجھے اس شنگھائی کا نفرنس کے حوالے سے یاد آئی۔ کانفرنس تو ایک دن کی تھی مگر 5 دن تو گھر ،بازار،بینک مع مکینوں کے بند رہنے پر مجبور کئے گئے ۔ بے چارے ڈھابے والوں کو تو پولیس کی سوٹیاں ملیں اور عمومی گروسری کی دکانوں کو بھی حکماً بند رکھا گیا۔ شہر کو معزز مہمانوں کیلئے بہت سجایا گیا۔ مگر دیکھنے والے کون تھے کہ شہر کو تو ایک دفعہ پھر ٹینکر زلگا کر بند کیا گیا تھا۔ دو ہفتوں میں دو دفعہ لاک ڈاؤن کے باعث نہ صرف سارے کاروبار، تجارتی، تعلیمی ادارے بند رہے۔ تو پھر کیا میڈیا پر تعلیمی اور ثقافتی پروگرام عوام کی دلجوئی کیلئے تھے۔ عوام کا لفظ غلط استعمال کیا کہ وہ تونہ کا نفرنس کے تماشائی تھے نہ حصہ دار سارے سربراہوں کی ملاقات، با قاعدہ صحافیوں سے بھی ہوئی اور نہ کسی کاٹی وی پر انٹرویو ہوا۔ کانفرنس سے پہلے اور بعد میں صرف چہ میگوئیاں انڈیا کے وزیر خارجہ کی آمد اور روانگی کو ہمارے صحافیوں سے بھی پردے میں رکھا گیا۔ البتہ برکھا دت خاص طور پر نواز شریف صاحب سے انٹرویو کرنے آئیں اور چلی گئیں ۔ جتنے صحافی آئے اور کس سے ملے یہ بھی رازرہا۔یہ کہنا کہ یورپ اور ایشیا کے ملکوں کے روابط پر بہت زور دیا گیاجبکہ خود ایشیا کے ممالک میں سرحدیں ملنے کے باوجود، نہ کوئی تجارت نہ بات چیت ہے البتہ دہشت گرد ی کرنے اور الزامات لگانے میں ہم نے 75سال گنوا دیئے۔ ان دو ہفتوں میں اسلام آباد کے ہر قسم کے کاروبار کو بند رکھنے سے ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یا تو ہمارے شہر اسلام آباد کے برابر ڈی چوک سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ ہائوس اور سیکرٹریٹ پر مشتمل علاقے کو نئے اور الگ شہر کا نام دیدیا جائے۔ ہمیں ان سیاسی سرگرمیوں سے کوئی فائدہ نہ تعلق کہ جو کچھ ہم ٹی وی پر سنتے ہیں۔ اس میں سچ تو نمک برابر بھی نہیں ہوتا۔ ویسے جو سیاست چل رہی ہے وہ معیشت کو نہ بہتر کرسکے گی نہ ہماری خالی جیبوں کو کچھ دے سکے گی۔ مت سمجھئے کہ میں بزرگ ہوکر اول فول بول رہی ہوں۔ میں نے جمہوریت اور آمریت کے سب زمانے جنہیں اب تک جمہوری کہا گیا دیکھے ہیں، وہ صرف مبالغہ تھا۔25 ممالک کے لوگوں کی دستاویزی یاکمرشل فلمیں بھی دکھا دی جاتیں۔ کوئی تو رابطہ کی شکل ہوتی۔ اب بتائیں کہ کتنا خرچ ہوا۔ اسوقت تو شمال مغربی علاقوں میں جرگے ہو رہے ہیں۔ پشتون جرگے میں اعلان کیا گیا کہ آزادانہ آمدورفت اور تجارت ہوگی۔ بلوچستان کے جرگے میں بلوچ یکجہتی گروپ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا نام تو کئی ماہ سےسرگرمیوں میں آرہا تھا۔ ان کو امریکہ جانے سے روک کر اور غلطی کی گئی ہے۔ ادھر سرکاری بیان ہے کہ ایئر پورٹ پر دہشت گردی بی۔ ایل۔ اے نے کروائی، کوئی تو تفصیل معلوم ہو۔
اب تک دنیا میں تین کانفرنسیں ہوئی ہیں ۔ ہر کانفرنس میں تخفیف اسلحہ کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ مگر سامنے آیا کہ ایک طرف اسرائیل بڑھ کر لبنان میں دراندازی کر رہا ہے۔ امریکہ اسکو مزید اسلحہ بھیج رہا ہے۔ یوکرین کی حیثیت ایک سال پہلے کیا تھی۔ اب سارے یورپ، امریکہ اور انگلینڈ نہ صرف وہ حکومتوں کا مہمان بن کر جا رہا ہے، بلکہ جس طرح کے دفاعی اخراجات ہوں وہ سب مدد مانگ کر آگے ہی بڑھ رہا ہے۔ ہر کانفرنس میں غربت میں کمی کیلئے سفارشات کی جاتی ہیں۔ مگر 42فیصد آبادی کو دنیا بھر میں غذا کی قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان نے آبادی کنٹرول کرنے کیلئے محکمہ بھی بند کر دیا ہے۔ بند تو تعلیم کا محکمہ بھی کر دینا چاہئے اور سارے اسکول یا تو بڑے انگریزی اسکولوں کو دیدیئے جائیں کہ وہ کچھ فیسیں کم کردیں یا پھر اشتہار دیں کہ ہر متوسط خاندان ایک بچے کی کفالت کرے۔ ہمارے وزیر اعظم کئی دفعہ بل گیٹس سے ملاقات کرکے آئے ہیں ۔ کوئی باقاعدہ اسکول سسٹم بل گیٹس اور دنیا بھر کے امیروں کی کفالت میں دیئے جائیں ۔اس وقت جس کا جی چاہتا ہے وہ قانون بناکر کرکٹ سے لیکر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ ویسے کمال تو انڈیا میں ہو رہا ہے۔ پہلے کشمیر کو قانوناً انڈیا کا حصہ کہا۔ بہت شور پانچ سال تک رہا۔ اب کشمیر میں الگ الیکشن ہوئے اور عمر عبداللہ کو پھر وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ کیونکہ مسلم نشستیں زیادہ ہیں۔ انڈیا کے 9سال سے وزیر خارجہ جن کو شاید ابھی تک ڈپلومیسی نہیں آئی یا خاص کرم پاکستان پر ہی ہے۔
اکتوبر اس لحاظ سے بھی مشہور ہے کہ اس میں تمام شعبوں میںنوبیل ایوارڈ دیئے جاتے ہیں۔ اب تک یورپ کے اردگرد چکر لگاتے رہے تھے۔ اس دفعہ بہت اچھا انعام جاپانی ہیروشیما بمباری میں بچ جانے والوں کو امن ایوارڈ کی صورت دیا گیا ہے۔ وہ لوگ انعام ملنے کا سن کر آبدیدہ ہوگئے اور اپنے دکھی بچپن کو یاد کرکے جذباتی ہوگئے۔ ویسے جنوبی کوریا کی 52سالہ خاتون کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ اس کی تحریریں ابھی انگریزی میں آئیں گی پھر اس کی ادبی اہمیت واضح ہو گی۔ یوں تو پاکستان سے اکیڈمی آف لیٹرز نے بھی چھلانگ لگانے کی کوشش کی مگر ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نام نہ پاکر کچھ اپنے پر اور کچھ اکیڈمی پر طبیعت مکدر ہو گئی۔
حکومت نے بہت سے اداروںکو ضم کرکے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر بہت تشویش اس امر کی ہے کہ سائنس کے محکمے میں بہت سی پوسٹیں خالی ہیں۔ ویسے تو ہر محکمے میں اگر کوئی سینئر پوسٹ خالی ہے تو اس کو ختم کرنے کا عمومی فیصلہ کیا گیا ہے۔ دنیا مصنوعی ذہانت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے اور ہمارے محکمہ موسمیات کی پیش گوئی غلط نکلے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ آلات اور ماہرین نہیں ہیں جو درست موسم کا حال بتادیں کہ فلاں وقت اور فلاں دن بارش ہوگی۔ آخرمیں ایک شکایت وزیر اعظم صاحب سے کہ اتنے سارے ملکوں کے نمائندے موجود تھے۔ مگر کانفرنس شرکا، منتظمین اور کسی چھوٹی بڑی جگہ خواتین نظر نہیں آئیں، کیا یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا گیا کہ باقی دو جگہوں کی کانفرنسوں میں خواتین عہدیدار بھی موجود تھیں۔ وزارتِ خارجہ کی سیکرٹری بھی دکھائی نہیں دیں۔ کیا ذاکر نائیک کی گفتگو اثر انگیز تھی۔ اعلامیہ میں بھی سب کچھ وہی ہےجو ترقی پذیر ملکوں کو کہا جاتا ۔ مگر دہشت گردی کا ذکر وہ بھی افغانستان کے حوالے سے۔مگر موجودہ جنگوں اور مسلسل بیروت پربمباری کی طرف اشارہ بھی نہیں تھا۔ سی پیک کا حوالہ ضرور آیا۔ شاید چینی وزیراعظم اسی لئے چارروزہ دورے پر پاکستان آئے ہیں۔