• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکتِ خداداد اسلامیہ میں سکہ رائج الوقت ’’جھوٹ‘‘، ایک مستحکم کرنسی، قومی سیاست کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے ۔ اللہ رحم! احکامات اور روایات تک پس پشت ڈال چکے ہیں۔ بات حتمی! جھوٹ سے آپ داد و تحسین وصول کر سکتے ہیں، مذموم ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاریخ کی جمع تفریق میں ’’جھوٹے سیاستدان‘‘ کے طور پر نمایاں مقام ملے گا۔SCO سربراہان کانفرنس کی کامیابی پر حکومت کو مبارک باد، کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر جہاں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہوا وہاں حکومتی اعتماد میں بھی بھرپور اضافہ ہو چکا ہے۔ چینی وزیراعظم کے تین روزہ دورہ نے مزید چار چاند لگا دیئے، CPEC کے درجنوں منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کو دہرایا گیا۔ چینی وزیراعظم کی حمایت ایک گارنٹی ، موجودہ مشکل حالات میں حوصلہ افزاہے۔ SCO کانفرنس کے تناظر میں تحریک انصاف کا کردار بھی ناقابل فراموش، ہرطریقہ سے انتشار پھیلانے کی ناکام کوشش ’’قابل ستائش‘‘ ہے۔ امکان کہ PTI لیڈر اپنے قائد کی فہم، عقل و فراست سے عاری سوچ کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ احمقانہ سیاست کروا کے قائد کی عزت و تکریم سے کھیل رہے ہیں، پریشانیوں اور تکالیف میں بدرجہ اتم اضافہ ہو چکا ہے۔

نئے بلند حوصلہ کے بعد، حکومت حسب منشا آئینی ترامیم کروا کے کامیابی کے مزید جھنڈے گاڑنے کو ہے۔ قوی اُمید ہے کہ کل بروز ہفتہ جب پیش ہو گی تو تحریک انصاف بھی حسب توفیق متفق نظر آئیگی۔ ویسے تو آج بروز جمعہPTI نے ملک گیر ہڑتال کی کال دے رکھی ہے جو ناکام رہنی ہے۔ ناکام جلسے جلوسوں، احتجاجوں کا اعجاز ہی تو ہے کہ سول سوسائٹی کے ہر چھوٹے بڑے احتجاج کو اُچکنے اور اس میں حصہ ڈالنے سے لیکر محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے تک، کوئی موقع نہیں گنوایا۔ عمران خان کی بد قسمتی ساری قیادت اندرونِ خانہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کار ہے۔ باہمی بداعتمادی، اندرونی لڑائی جھگڑے (کچھ فرضی کچھ اصلی)، ملک میں انتشار کو ہوا دینے والی پارٹی اندرونی انتشارو خلفشار کا شکار ہے۔ آئینی ترامیم جب منظور ہونگی تو ایسا آئینی بینچ بنے گا جو آئینی عدالت کے کوائف پورے کرئیگا۔ قصہ مختصر! ترمیم کے مقاصد کماحقہ پورے ہو جائیں گے۔

عمران خان گروہ نے جھوٹ کا کاروبار وسیع کر رکھا ہے۔ جو کام محنت مشقت اخلاص سے کرو گے، اسکے لئے وسائل اور سہولتیں فراہم کرنے پر قادر ہے۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی کہ عمران خان کی 28سالہ سیاست استوارہی منفی بیانیہ پر ہے۔ ساری سیاست مخالفین کی سیاسی موت سے متعلق ہے۔ ساری سیاست کا دارومدار مخالفین خرچ ہو جائیں گے تو سیاسی دال دلیہ ہو پائےگا ۔ مجال ہے کبھی کوئی مثبت ایجنڈا دیا ہو۔ اس تگ ودو میں جھوٹے الزامات اور بہتان تراشنے کے علاوہ کوئی کام آتا نہیں۔ ایک واقعہ درج کروں گا، 25 دسمبر 2011 (کراچی میں) شاندار جلسہ کیا تو اگلے دن جنرل پاشا، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے جلو میں امریکیوں سے اشیرباد لینے ابوظبہی پہنچ گئے ۔ تب وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ اور ABSOLUTELY NOT" "کا ڈھونگ رچانا پڑےگا۔

ساری سیاسی زندگی میں ایک کاوش بتائیں جو جھوٹ کا سہارا لئے بغیر پنپ پائی ہو ۔ پچھلے تین برسوں میں عمران خان کے جھوٹ پر جھوٹ نے ’’اَت مچا‘‘ رکھی ہے۔ سائفر سے شروع جھوٹ آج لاہور کے کالج کی بچی کے ساتھ فرضی زیادتی کے جھوٹے اسکینڈل تک آن پہنچاہے۔ 9مئی کی گرفتاری کے بعد 13مئی کو لاہور پہنچے تو پہلی پریس کانفرنس میں سانحہ 9مئی ہنگامہ کے حقوق ِملکیت فخریہ جتلائے ۔ دو تاریخی فقرے ادا کئے، ’’مجھے گرفتار فوج کرے اور میرے ورکرز احتجاج (9مئی والا) وزیراعظم ہائوس کے باہر کریں، تم مجھے پھر گرفتار کرو گے تمہارے ساتھ (یعنی کہ فوج کیساتھ) پھر یہی سلوک ہوگا‘‘ ۔

جب دیکھا کہ 9 مئی کے حقوقِ ملکیت والا پلان

COUNTER PRODUCTIVE ہے تو حسب معمول پینترا بدلا کہ یہ FALSE FLAG آپریشن تھا۔ یعنی کہ فوج نے میرے ورکرز کو بہلا پھسلا کر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کروا ئی۔ آخری خبر آنے تک FALSE FLAG آپریشن پر ڈٹ کر کھڑا ہے ہمارا کپتان۔ ظل شاہ جب کار ایکسیڈنٹ کا شکار، ٹکر مارنے والا PTI کا سابق MPA ، آج بھی ظل شاہ کی موت پر سیاست رچائی جا رہی۔ طوالت کے ڈر سے UTurn یا وضاحتی بیانات کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ چند مثالوں میں صرف ان جھوٹوں کا احاطہ کیا جو وطنی انتشار، بد امنی، خانہ جنگی کیلئے زیر استعمال رہے۔ مکافات عمل! کلثوم نواز بستر مرگ پر، شوہر اور بیٹی اڈیالہ جیل میں، کلثوم نواز کی فون پر خیریت معلوم کرنے کیلئے باپ بیٹی بلکتے رہے، عمران خان کو ترس نہ آیا۔ رانا ثناء اللہ کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا، جون جولائی میں ایسا کمرہ جسکی چھت ٹین کی اور زمین کیڑے مکوڑوں، چیونٹیوں سے بھری تھی۔ نہ تو رانا ثناء اللہ کی مونچھیں پکڑ کر گھسیٹنے کی حسرت پوری ہوئی اور نہ ہی رانا ثنا کے استحکام اور عزم کو گزند پہنچی۔

آجکل ملاقاتوں پر دس دن کی پابندی پر ایسا شور و غوغا، واویلا کہ SCO کانفرنس میں رخنہ ڈالنے کا ہر ہنر آزما ڈالا۔ یاد کرو مئی 2019 جب نواز شریف پر وکیلوں اور دیگر ملاقاتیوں کی ہفتوں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ کونسی پریشانی جس میں آج آپ مبتلا ہو جو آپ نے اپنے مخالفین سے روا نہیں رکھی۔ ظلم و ستم کی ایک داستان ہے جو سینکڑوں صفحات پر منتقل ہونے کی متلاشی ہے۔ جناب کی سیاست کا حاصل کلام ہی یہ کہ تمام سیاسی مخالفین چکنا چور ہو جائیں۔ جس اسٹیبلشمنٹ کے آپ دہائیوں برضا رغبت مہرہ بنے رہے، آج وہ سہولت کار بننے سے انکاری ہے تو میر جعفر میر صادق ۔ امریکہ کے چرنوں میں بھی اور ABSOLUTELY NOT کا ڈھونگ بھی۔ اگر آپکے سارے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں، سب مخالفین تہہ تیغ ہو جائیں اور ’’سنجیاں ہو جان گلیاں‘‘ یا پھر ملک انتشار وافراتفری کا منبع بن جائے۔ عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں ۔

منحصر مرنے پر ہو جس کی اُمید

نااُمیدی اس کی دیکھا چاہئے

تازہ ترین