داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت سے متعلق عالمی کانفرنس بعنوان ’نیوی گیٹنگ بیریئرز: آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی دیگر بین الاشعبہ جات میں اہمیت اور پینل مذاکراہ‘ آج بروز جمعہ 19دسمبر نئی اور جامع سفارشات کے ساتھ اختتام پزیر ہو گئی۔
اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب تھے، جبکہ کانفرنس کی سفارشات پروفیسر ڈاکٹر محمد سنوسی عظمیٰ نے پیش کیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ داؤد یونیورسٹی آنا میرے لیے ایک خوش گوار اور مثبت تجربہ رہا ہے اور یہ جامعہ علم، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین (نشانِ امتیاز، تمغۂ امتیاز) کو کامیاب عالمی کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا داؤد یونیورسٹی کا دوسرا دورہ ہے اور یہاں نوجوانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر امید پیدا ہوتی ہے۔
میئر کراچی نے کہا کہ ہمارے نوجوان ینگ مائنڈ رکھتے ہیں اور کچھ نیا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، زندگی میں بہت سے بیریئرز آتے ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ آگے بڑھنا ہے، مختلف نظریات کے ساتھ سوچنے کا عمل رکاوٹوں کو عبور کرنے میں مدد دیتا ہے اور کوئی طاقت ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتی۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور آج اکیڈمیا، اسپورٹس اور دیگر شعبوں میں اے آئی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، اگرچہ میں انجینئر یا ٹیکنیکل شخص نہیں ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی سمت متعین کر رہی ہے۔
مرتضٰی وہاب نے زور دیا کہ نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں، کیونکہ اگر لوگ خوش ہوں تو ترقی کی رفتار کو کوئی نہیں روک سکتا۔
آخر میں انہوں نے دعا کی کہ طلبہ ترقی کریں، یہ جامعہ ترقی کرے، ہمارا شہر اور ہمارا ملک ترقی کرے۔
اس موقع پر وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین (نشانِ امتیاز، تمغۂ امتیاز) نے میئر کراچی کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اس عالمی کانفرنس کی کامیابی اور داؤد یونیورسٹی کی مسلسل ترقی سندھ حکومت کے نام کرتی ہوں، جس کے تعاون سے تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ نے جامعہ کو ایک اسکول فراہم کیا جسے فیکلٹی میں تبدیل کیا گیا، جبکہ 6 دسمبر سے میگا ایونٹس بھی کامیابی سے منعقد کیے گئے، آج ناصرف اس عالمی کانفرنس کا اختتام ہو رہا ہے بلکہ جامعہ کے اس سالانہ کیلنڈر کی سرگرمیوں کا بھی اختتام کیا جا رہا ہے۔
وائس چانسلر نے کہا کہ 2 روزہ عالمی کانفرنس کے انعقاد میں کانفرنس کے کنوینر اور ڈین فیکلٹی آف انفارمیشن اینڈ کمپیوٹنگ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر عاطف جمیل، ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئرز اینڈ سیکیورٹی انجینئر ڈاکٹر صدام علی کھچی اور طلباء رضا کاروں نے انتہائی محنت کی اور وہ اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
کانفرنس کے دوران پیش کی گئی سفارشات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت ہے جو انسانی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے، بشرطیکہ اسے اخلاقی، پیشہ ورانہ اور ذمے دارانہ انداز میں استعمال کیا جائے۔
سفارشات میں کہا گیا کہ فیکلٹی ممبران اور طلبہ کو چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی اور دیگر جدید اے آئی ٹولز کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جائے تاکہ جدید، تخلیقی اور بین الشعبہ جاتی حل سامنے آ سکیں۔
ماہرین نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ مصنوعی ذہانت کو خوراک کی پیش گوئی، جرائم، سیکیورٹی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے مربوط حکمتِ عملی کے تحت استعمال کیا جانا چاہیے۔
دفاعی اور اسٹرٹیجک تناظر میں سفارش کی گئی کہ روایتی ہتھیاروں کے بجائے اے آئی اور مشین لرننگ پر مبنی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے، اخلاقی مصنوعی ذہانت ایک بڑا عالمی چیلنج ہے جس کے لیے بین الاقوامی فریم ورک، ضابطۂ اخلاق اور آڈٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔
کارپوریٹ دنیا سے متعلق سفارشات میں کہا گیا کہ صنعت اے آئی کے دور میں ایکو سسٹمز کی تشکیل، تحقیق و ترقی، اسٹرٹیجک شراکت داری اور یونیورسٹی سسٹم میں ایمبیڈڈ اے آئی کے فروغ کے ذریعے خود کو مستحکم کر سکتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ مصنوعی ذہانت مٹیریلز انجینئرز یا دیگر شعبوں کے ماہرین کی جگہ نہیں لے گی بلکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی، مستقبل میں توانائی کے نظام جنریٹو اے آئی کی مدد سے ذہین، خودکار اور خود کو بہتر بنانے والے ہوں گے، جس سے پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔