پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے کامیاب اجلاس سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت اورباوقار قوم کا تشخص ابھرا ہے۔ ستائیس سال بعد کسی بڑے عالمی فورم کے انعقاد سے پوری پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی اس اہم موقع پر قومی مفاد میں اپنا احتجاج ملتوی کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا۔ ملک و قوم کی عزت ،وقار اور سلامتی سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔پاکستان ہے تو سیاست اور ہم سب ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آئندہ بھی ہم سب ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دیں۔پاکستان کو ایس سی او کانفرنس کی میزبانی ملنا خوش آئند امر ہے اس سے پاکستان کو سفارتی سطح پر بڑی کامیابی ملی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ایس سی او کے اجلاس کے انعقاد سے ہمارے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ پاکستان کو ایس سی او کے اس پلیٹ فارم سے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو حل کرنے کیلئے آئندہ بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت جنگوں نے عالمی برادری کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا میں کروڑوں افراد بھوک افلاس کا شکار ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بھی فوری اقدامات کئے جائیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری روایتی بے حسی اور جانبدارانہ طرز عمل ختم کرے اور کشمیراور غزہ کی سنگین صورتحال کا نوٹس لے۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نریندرمودی سے ملاقات کی خواہش بھی کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ،انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے ڈھائے جانے والے مظالم کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ 5اگست 2019 کو جس طرح بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370ختم کر کے مقبوضبہ کشمیر پر قبضہ کیا تھاوہ اقوام متحدہ کے ضمیر اور عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہندوستان سے اب خیر کی توقع رکھنا محض خود فریبی ہوگا۔ماضی میں پاکستان کو دنیامیں تنہا کرنے کی کوشش ہندوستانی حکومت کا سرفہرست ایجنڈا رہاہے اور وہ شروع دن سے اس پر عمل پیرا ہے۔ ایس سی او کے سربراہی اجلاس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا ناکام ہو گیا ہے۔ نریندرمودی حکومت کے تمام اوچھے ہتھکنڈے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ان حالات میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے پوشیدہ قوتوں کو عالمی برادری کے سامنے عیاں کیا جانا چاہیے۔ بھارت کی دہشت گردی صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور کینیڈا میں بھی بے نقاب ہو چکی ہے۔ لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ان کویہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہندوستان سے اس وقت تک تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کے 80لاکھ مسلمانوں کو حق خودارادیت نہیں دے دیتا۔جموں و کشمیر کے عوام الحاق ِپاکستان چاہتے ہیں۔ بھارت اپنی دس لاکھ فوج کے مظالم کے ذریعےجموں و کشمیر پر غاصب ہے۔ وہ اگر پاکستان سے دوستی کرنا چاہتا ہے تو پہلے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے۔
فلسطین اور جموں و کشمیر میں ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ ہمیں ملکی حالات کو بھی بہتر کرنا ہوگا۔بدقسمتی سے آج ملک و قوم جس صورتحال سے دوچار ہیں، امن و سکون ہے اور نہ ہی آئین و قانون کی پاسداری ہے۔پاکستانی اشرافیہ نے قانون کو موم کی ناک سمجھ رکھا ہے، امیروں کیلئے الگ قانون ہے جبکہ غریبوں کیلئے ایک الگ ہی نظام ہے۔ کرپشن نے ریاستی نظام کو مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا ہے،یہ سب کچھ صرف اور صرف مفاد پرستوں اور مافیاز کی پشت پناہی کی بدولت ہے۔جب تک پاکستان میں محب وطن اور ایماندار قیادت نہیں آتی اس وقت تک حالات میں بہتری نہیں ہوسکتی۔ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو منی بجٹ سے آگاہ کرنے کی خبریں بھی تشویشناک ہیں، عوام پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں، ریونیو میں شارٹ فال کی صورت میں 130ارب روپے تک ٹیکس بڑھانے کی خبر نے عوام کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ ایسے لگتاہے کہ ارباب اقتدار کے پاس کوئی قابل عمل معاشی پروگرام نہیں ہے۔ ملک و قوم اس وقت سنگین بحرانوں کی زد میں ہیں۔اس سے نکلنےکیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہیر یٹیج انڈیکس آف فریڈم کی اہم رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ”پاکستان میں معاشی آزادی کا فقدان ہے اور اس وقت184ممالک میں سے 147ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ نے توشہباز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک پر دیوالیہ پن کے خطرات موجود ہیں۔ عوام وسائل میں کمی اور غیر منصفانہ تقسیم کا شکار ہیں۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے۔قصہ مختصر! ایس سی او کے کامیاب اجلاس کے بعد پاکستانی قیادت کو عوام کو درپیش مسائل مہنگائی، مہنگی بجلی گیس میں کمی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری پرقابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔