• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف اپنے پچھلے ادوار حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے کوشاں رہے اور اسے دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بجا طور پر لازمی قراردیتے رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان آنیوالے بھارتی صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے پھر اس ضرورت کا بھرپور اظہار کیا۔ جرمن نشریاتی ادارے نے اس بارے میں ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے جسکے مطابق نواز شریف کا کہنا تھا کہ انکی بہت زیادہ خواہش تھی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں نریندر مودی خود اسلام آباد آتے۔ نواز شریف نے بھارتی وزیر خارجہ کی اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آمد کو ایک اچھی شروعات قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے 75 سال کھودیے لیکن اب ہمیںاگلے 75 برسوں کے بارے میں سوچنا چاہیے، پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے، ہمیں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہئے، دونوں طرف گلے شکوے ہیں،ماضی کو دفن کردیں،بات ایسے ہی بڑھتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم کا کہنا تھاہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے، تجارت، سرمایہ کاری، صنعت، سیاحت، بجلی جیسے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے بڑے امکانات ہیں۔ مودی کے 2015 ء میںلاہور کے اچانک دورے متعلق انہوں نے کہا، مودی کا یہ دورہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔ وہ چاہیں گے کہ مودی باضابطہ طور پر دوبارہ دورہ کریں۔ ہم نے دھاگے کو جہاں چھوڑا تھا اسے وہیں سے اٹھا لینا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں بار بار خلل پڑا۔واضح رہے کہ 26سال پہلے ان کے دور حکومت میں بھارت کی واجپائی حکومت نے ایٹمی دھماکے کیے تو نواز شریف نے بھی بحیثیت وزیر اعظم پاکستان اس کارروائی کا بھرپور جواب دے کر اس حقیقت کا برملا اظہار کردیا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ایٹمی دھماکوں کے فیصلے سے روکنے کے لیے شدید امریکی دباؤ اور بھاری مالی تعاون کی ترغیبات کو بھی نواز شریف حکومت خاطر میں نہ لائی۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ وزیراعظم واجپائی کے اس اعلان کی شکل میں سامنے آیا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں لہٰذا بھارت اور پاکستان میں بہتر تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔اس کے بعد اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے، مینار پاکستان پر حاضری دی اور ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں اعلان کیا کہ دونوں ملکوں میں اب کبھی جنگ نہیں ہوگی بلکہ دوستانہ تعلقات استوار ہوں گے۔ اس ملاقات میں کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات کے تصفیے کے تمام فریقوں کیلئے قابل قبول فارمولے پر بھی بات ہوئی لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد اس وقت کی عسکری قیادت نے کارگل کا ایڈونچر کرکے اس خوشگوار پیش رفت کو خاک میں ملادیا ، اگرچہ اس کے بعد خود جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات میں کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے اچھی پیش رفت کی لیکن ایسی ہر کوشش بالعموم دہشت گردی کی دوطرفہ کارروائیوں کی وجہ سے ناکام ہوتی رہی۔ تاہم ہوشمندی اور دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ خطے کے روشن اور بہتر مستقبل کی خاطر باہمی تعلقات معمول پر لائے جائیں اور اختلافات کا حل نیک نیتی کے ساتھ باہمی گفت و شنید سے نکالا جائے کیونکہ نہ پڑوسی بدلے جاسکتے ہیں نہ دونوں ملک 75 برس ضائع کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نواز شریف کی خواہش کے مطابق مودی حکومت کو بھی بھارتی وزیر خارجہ کی خوشگوار ماحول میں پاکستان آمد کو ازسرنو بہتر باہمی روابط کا نقطہ آغاز بنا کر اس سمت میں نتیجہ خیز اور تیزرفتار پیش رفت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ مودی کا دورہ پاکستان اس میں یقینا فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔

تازہ ترین