• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا میں صدی کا سب سے خطرناک سمندری طوفان جسے ملٹن کا نام دیا گیا ہے وہ امریکی ساحلی ریاست فلوریڈا سے ٹکرا گیا ہے، سمندری طوفان کے زیر اثر ایک سو پچانوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفانی ہوائوں نے فلوریڈا میں دو ہزار پروازیں منسوخ کرا دیں اور امریکی تاریخ کے بد ترین طوفان نے پانچ لاکھ لوگوں کے گھروں میں موم بتی کو متعارف کرادیا۔ اگرچہ یہ ایک قدرتی آفت ہے جس کا امریکہ شکار ہوا ہے، اس سے پہلے بھی تاریخ میں بارہا ایسے طوفان آئے ہیں جنہوں نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔دوسری طرف پاکستان میں بھی عوام اور حکمران دونوں کو پی ٹی آئی کے سیاسی طوفان کا سامنا ہے جو کہ مسلسل چل رہا ہے۔ بار بار عمرانی سونامی کی لہریں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک کے ساحل سے ٹکرا رہی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے لاکھوں مکین ان دیکھے اور دیکھے بھالے عذاب میں مبتلا رہے ہیں۔ راستوں کی بندش سے جہاں سرکاری ملازمین، نجی اداروں میں کام کرنے والے، طلبہ و طالبات اور دیہاڑی دار مزدور پریشان حال مارے مارے پھرتے رہے اور حصول رزق حلال کیلئے سرگرداں پریشان نظر آئے تو دوسری طرف ان پر تشدد بھی ہوا۔ آنسو گیس کے کئی سو شیل پھینکے گئے۔ پھر پانچ سات دن کے وقفے کے بعد پی ٹی آئی نے ایک بار پھر ایک ایسے موقع پر جب وفاقی دارالحکومت میں ایک بین الاقوامی سطح کا ایونٹ ہونے جا رہا تھا’’ایس سی او کانفرنس‘‘ اس کو سبوتاژ کرنے کیلئے پندرہ اکتوبر کو وفاقی دار الخلافہ پر چڑھائی کا اعلان کر دیا ۔تاہم بعد میں کال واپس لےلی گئی۔جہاں تک آئینی ترامیم کے پیکیج کی پارلیمنٹ سے منظوری کا معاملہ ہے توتادم تحریر مولانا فضل الرحمن نے بسرو چشم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے کا اعلان کیاہے۔ پہلے ان کا آئینی ترامیم کے مشترکہ پیکیج کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ساتھ بھی اتفاق ہوچکا ہے۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی گاڑھی چھن رہی ہے اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اس امر کا عندیہ دیا تھا۔ کبھی گومگو کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور پھر بسا اوقات معلوم ہوتا ہے کہ مطلع صاف ہوگیا ہے، مولانا نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن پھر پتہ چلتا ہے کہ ابھی ’’حتمی فیصلہ‘‘ نہیں سنایا، یہ فیصلہ کن فیصلہ کب آئے گا امکان تو یہی ہے کہ آج کل تک یہ پتہ چل جائے گا کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے اور معاملات کس طرف جا رہے ہیں۔ ساری سیاسی قیادت کو روز صبح و شام مولانا سے ملاقات کیلئے وقت لے کر ان کے پاس جانا پڑتا تھا لہٰذاوزیراعظم نے امیر جماعت اسلامی کی تجویز پر مستقل بندوبست کردیا کہ غزہ کے معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلالی جس میں ’’معتوب‘‘ جماعت کی نمائندگی نہ تھی نہ ہی پرویز خٹک والی پی ٹی آئی کو کسی خاطر میں لایا گیا۔ اس کانفرنس سے جہاں اقوام عالم کو ایک اچھا پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت تمام تر اختلافات کے باوجود مسئلہ فلسطین پر کامل اتفاق رائے رکھتی ہے اور مولانا نے قائد اعظم کی ارض فلسطین کے بارے میں قومی پالیسی کا بھی کھل کر اظہار کردیا تھا، اسی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے دو ریاستی فارمولے کو بھی لتاڑا جس کی وہ یو این او کے اجلاس میں حمایت کرچکے تھے۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ جس نے بھی مولانا کو قائل کرنا تھا، کن اکھیوں سے بھی اور مل بیٹھ کر بھی ’’رام‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ یوں اتنی آسانی سے کسی کے دام میں آنے والے شاید نہیں تھے۔ اگرچہ ایک ہی چھت تلے سارے مواقع موجود تھے لیکن اس وقت مولانا کی طلسماتی شخصیت کو تسخیر نہ کیا جاسکا۔شنگھائی اجلاس ہوچکا ہے۔آئینی ترمیم کےمعاملے پر کامل اتفاق بھی ہونیوالا ہے، کون کس کی صف میں شامل ہے، کون کس کیساتھ کھڑا ہے، کسے توڑا گیا، کسے خریدا گیا، پنچھیوں نے کہاں دانا چگنے کا عزم کر رکھا ہے، سب آشکار ہونیوالاہے۔ حکومت کو سیاسی طوفان کے حملے سے بچائو کا بھی بندوبست کرنا ہے، کیا اس بار صرف چھینٹے پڑیں گے یا بارش سب کچھ بہا کر لے بھی جاسکتی ہے؟ بندشیں بھی تیار ہیں، صیاد بھی دام میں آنے کو بے تاب ہیں اور جال اٹھا کر اڑنے کا بھی منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں، شکار اور شکاری دونوں گھات لگائیں گے۔ اتفاق اب حسن اتفاق سے قائم بھی رہتا ہے یا نہیں اس کی ابھی کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن زیادہ دیر انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی، سب کھل کر سامنے آجائے گا۔

رنگ و رُس کی ہوس اور بس

مسئلہ دسترس اور بس

تازہ ترین