• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک منٹ کے لیے فرض کریں کہ پاکستان میں معجزہ رونما ہو گیا ہے اور وہ معجزہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کو احساس ہو گیا ہے کہ ملک اِس طرح نہیں چل سکتا لہٰذا انہوں نے اللے تللے اور عیاشیاں ختم کردی ہیں، قانون کی آڑ میں حاصل کردہ مراعات سے دستبردار ہو گئی ہے اور معاشی پالیسیوں کا تعین یوں کر دیا ہے کہ صرف قومی مفادپیشِ نظر ہے۔اسی معجزے کے سبب تمام اسٹیک ہولڈرز نے ایک نیا میثاق کیا ہے جس میں پارلیمان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے، اِس میثاق کے تحت ملک کو آئندہ بیس برسوں میں ترقی یافتہ بنانے کا لائحہ عمل تشکیل دیا گیا ہے اور سب نے خلوصِ نیت سے اِس پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔ عوام بھی ملک کو عظیم بنانےکیلئے پُر عزم ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ محض بچے پیدا کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں ہُنرمند بھی بنانا پڑے گا سو ایک طرح سے ملک میں انقلابی فضا جنم لے چکی ہے اور ہر کسی کا فوکس اِس بات پر ہے کہ ملک ترقی کرے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ سب کچھ ہوگیا تو پھر ملک کی کیا صورت بنے گی؟ یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہوگا لیکن اگر یہ معجزہ رونما ہوگیا تو پھر ملک کی سمت درست ہو جائے گی، آبادی کو بریک لگ جائے گی، ہر بچہ اسکول جائے گا، جامعات سے صرف ڈگری یافتہ نوجوان نہیں بلکہ تنقیدی شعور رکھنے والے برآمد ہوں گے، قوم ڈسپلن کی پابند ہو جائے گی، ہماری سڑکوں، گلی محلوں اور بازاروں سے بے ہنگم تجاوزات ختم ہوجائیں گی، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر نہیں آئیں گے، ملکی برآمدات میں اضافہ ہو جائے گا، روپیہ مستحکم ہو جائے گا، غربت ختم ہو جائے گی، لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں آجائیں گی، انتہا پسندی اور دہشت گردی قصہ پارینہ بن جائیں گی، ہمسایہ ممالک سے تعلقات معمول پر آجائیں گے، ہمارے کھیل کے میدان مکمل آباد ہو جائیں گے اور ہم ایک نارمل قوم کی طرح موسیقی، آرٹ اور دیگر فنونِ لطیفہ کو اپنے معاشرے میں ضم کر لیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار ممالک ایسے ہیں جنہوں نے بغیر کسی معجزے کے یہ تمام کام کرکے دکھائے ہیں، ایسا ہی ایک ملک جنوبی کوریا ہے، جس کے دارالحکومت سول میں بیٹھا میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک آئیڈیل نہیں ہے، جنوبی کوریا بھی نہیں، غربت یہاں بھی ہے مگر اُس کی شرح بہت کم ہے اور وہ ایسی نہیں جیسی ہندوستان پاکستان جیسے ملکوں میں ہے۔ یہ ملک رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے آٹھ گنا چھوٹا اور آبادی کے اعتبار سے پانچ گنا کم ہے، اِس شرح سے دیکھا جائے تو یہاں ہم سے بھی زیادہ طوفانِ بدتمیزی برپا ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔سول ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، یہاں ٹریفک کی طویل قطاریں لگتی ہیں مگر شہر پُر سکون ہے، کہیں کوئی ہنگامہ برپا نہیں، صاف ستھری فضا ہے، جگہ جگہ سائیکلیں کھڑی ہیں، آپ کرائے پر سائیکل لے کر سارا شہر گھوم سکتے ہیں۔ مجھے دو مرتبہ بیجنگ جانے کا اتفاق ہوا ہے، میری رائے میںسول کے نمبر بیجنگ سے کہیں زیادہ ہیں، جتنا ڈسپلن میں نے سول میں دیکھا وہ بیجنگ میں نہیں ملا۔ زبان کا مسئلہ البتہ ویسا ہی ہے، کسی کو انگریزی نہیں آتی، صاف ستھری انگریزی بولنے والے صرف دو نوجوان ملے اور وہ دونوں تبلیغی تھے، انہوں نے آئی پیڈ میں انجیل مقدس کھولی ہوئی تھی، اُن کا مقصد مجھے مسیحیت کی جانب مائل کرنا تھا۔ معافی چاہتا ہوں، میں کہیں اور نکل گیا، جنوبی کوریا کے معجزے کی طرف واپس آتے ہیں۔جنوبی کوریا نے تقر یباً ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کی اور پھر فوراًبعد ہی شمالی کوریا سے جنگ چھِڑ گئی اور خطہ دو عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ بن گیا، تیس لاکھ لوگ مارے گئے، بالآخر 1953 میںجنگ بندی ہوئی۔ ایسی ہولناک شروعات کے علاوہ ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جنوبی کوریا میں چار دہائیوں تک آمریت رہی، اسّی کی دہائی میں کہیں جا کر ملک میں جمہوریت آئی مگر اِس کے باوجود ملک کی سمت درست رہی اور معاشی پالیسیوں میں استحکام رہا۔ جنوبی کوریا کی ترقی کی ایک بڑی وجہ امریکہ کا کردار بھی ہے جس نے بغضِ معاویہ میں سول کی مدد کی، آج بھی جنوبی کوریا میں اٹھائیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکیوں سے ڈالر تو ہم نے بھی بہت وصول کیے مگر ضائع کر دیے، اور پھر ہم اپنا وزن (چھٹانک بھر کا ہی سہی) بھی پورا امریکہ کے پلڑے میں نہیں ڈالتے۔ دوسری طرف جنوبی کوریا نے امریکہ کو جپھی ڈالی تو گھُٹ کے ڈالی اور پورا فائدہ اٹھایا، ہماری طرح نہیں کہ جپھی تو ڈالی مگر نظر کہیں اور لڑائی۔

میں پہلی نظر کی محبت کا قائل ہوں اور سول ایسا شہر ہے جس سے پہلی نظر میں محبت ہو سکتی ہے۔ فضا ایسی ہے کہ خواہ مخواہ دوڑ لگانے کو دل کرتا ہے، شاید اسی لیے یہاں موٹاپا کم ہے، خال خال ہی موٹا بندہ نظر آتا ہے۔ کورین لوگوں کی عمروں کا بھی پتہ نہیں چلتا، بعض اوقات تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ بندہ اپنی بیوی کے ساتھ ہے یا بیٹی کے ساتھ۔ میں ایک مرتبہ پھر معذرت خواہ ہوں کہ سیول کا قصیدہ لکھنے بیٹھ گیا حالانکہ آج تو مجھے فقط اِس سوال کا جواب تلاش کرنا تھا کہ کیا ہم جنوبی کوریا نہیں بن سکتے! میری رائے میں بالکل بن سکتے ہیں مگر اُس کیلئے راستہ بھی جنوبی کوریا والا اپنانا ہوگا جبکہ حرکتیں ہماری شمالی کوریا والی ہیں۔ ویسے میری بہت خواہش ہے کہ کبھی شمالی کوریا جاؤں کیونکہ اُس ملک کے بارے میں بہت عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، خاص طور سے اُس کا ڈکٹیٹرکِم جونگ اُن مجھے خاصا مخولیہ لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر ڈکٹیٹر کی طرح اُس کے ہاتھ بھی ہزاروں لوگوں کے خون سے رنگے ہیں۔ آخری تجزیے میں کہوں تو شمالی اور جنوبی کوریا کی مثال دو بھائیوں جیسی ہے جن میں سے ایک کَن ٹُٹّا بن گیا اور دوسرے نے یونیورسٹی میں داخلہ لے کر آئی ٹی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے، آج شمالی کوریا میں لوگوں کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہیں جبکہ جنوبی کوریا امارت میں اچھے اچھوں کو پچھاڑ رہا ہے۔ سول کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں ہوتا ہے، یہاں سے پیونگ یانگ کا فاصلہ تو شاید چند گھنٹوں کا ہے مگرسول جیسی ترقی کرنے کیلئے پیونگ یانگ کو کئی دہائیاں لگیں گی اور وہ بھی اُس صورت میں اگر پیونگ یانگ میں ویسا ہی کوئی معجزہ ہو جائے جس کی خواہش ہم پاکستان میں کرتے ہیں۔جب تک یہ نہیں ہوتا اُس وقت تک بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے! میں بھی یہی کر رہا ہوں،سول میں تصورِ جاناں، جو لاہور میں ہے۔

تازہ ترین