• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ اعلیٰ کے طور پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی کو وطن عزیز کے عدالتی نظام میں ارتقا کی ایک منزل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں تمام شعبے تبدیلی کے مرحلوں سے گزرتے آئے ہیں اور گزر رہے ہیں۔بات کو اگر عدالتی نظام تک محدود رکھا جائے تو جہاں عام لوگوں کے مقدمات کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر نظام انصاف پراعتماد میں ضعف بن رہی ہے وہاں حیران کن چیزیں بھی نظر آئیں بالخصوص از خود نوٹس کےبے محابا اختیار اور متعلقہ کیس کی حدود سے تجاوز کرکے فیصلے دینے کے واقعات تنقید کی زد میں آئے۔ ان امور پر مختلف قانونی اور دیگر حلقوں کی اپنی اپنی آراہیں مگر اس حقیقت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ قانونی نظام کو اخلاص عمل کے جذبے سے اصلاح و بہتری کی طرف گامزن رہنا چاہئے۔ اس باب میں اعتماد کا ضعف دور کرنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں تو ارتقا کاسفر بہتر نتائج دینے کے قابل ہوسکتا ہے۔ متعدد سیاسی پارٹیوں کے مشترکہ میثاق جمہوریت میں بھی اس سلسلے میں بعض امور کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ اداروں کے اختیارات کا توازن بگڑنے کے اثرات تمام حلقوں میں محسوس کئے گئے۔ اس نوع کے متعدد امور کا جو ردّعمل سامنے آیا، وہ یقیناً فطری ہے مگر بعض حلقوں کی یہ رائے بھی وزن رکھتی ہے کہ ملک کے آئینی اداروں میں پیدا ہونے والا کوئی عدم توازن پائیدار نہیں ہوتا۔ وقت اور حالات اس میں درستی و اصلاح کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پچھلے مہینوں اور ہفتوں میں رونما ہونے والی کاوشیں جس 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں ظاہر ہوئیں اسے وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لئے موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔اس باب میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسوّدہ کی بہتری سمیت کئی امور میں انتھک محنت کی۔ اچھا ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف بھی اس باب میں اپنا کردار ادا کرتی ۔ اختلاف رائے بلاشبہ جمہوری حق ہے مگر مملکت کا اعلیٰ مفاد اور اداروں کے وقار کا احترام بھی واجب ہے۔ 26ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد موجودہ چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے تین روز پہلے حکومت کو سپریم کورٹ کے بھیجے گئے تین ناموں میں سے ایک نام کاچنائو بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو کرنا تھا۔ مگر اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث فیصلہ اتفاق رائے کی بجائے دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر ہوا۔ پارلیمانی کمیٹیوں میں ججوں کی سماعت کا طریقہ دنیا کے متعدد ملکوں میں رائج ہے جس کے بعد چیف جسٹس کے تعین جیسے اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ وطن عزیز میں آگے بڑھے گا تو ’’ان کیمرہ‘‘ اجلاس کی بجائے کھلی سماعت بھی لوگ ٹی وی چینلوں پر دیکھ سکیں گے۔ اس طریق کار میں پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور ججوں پر وسیع تر اعتماد کے اظہار کے پہلو موجود ہیں۔ منگل کے فیصلے کے بعدجمہوری روایات کی سربلندی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے وابستہ کی گئی توقعات ہنوز کمزور محسوس ہوتی ہیں۔ عدالتوں میں فیصلے کو چیلنج کرنے اور ملک گیر احتجاج کے اعلانات کے منظر نامے میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے روّیوں میں تبدیلی لائیں۔ شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس اور کئی ملکوں کے اقتصادی وفود کے دوروں سے پاکستانی معیشت کی بہتری اور ملکی ترقی کی جو راہیں نکلی ہیں، ان کے فوائد بڑھانے میں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے ان سے نمٹنے کا بڑا مقصد سب کے پیش نظر رہنا چاہئے۔

تازہ ترین