’’جغرافیہ سرحد پار کررہا تھا‘‘۔
’’تاریخ اپنے اوراق محفوظ کرنے کی تگ و دو میں تھی‘‘۔’’حکمران خاندانوں کی تیسری نسلیں اپنے خواب مٹھی میں لیے راجدھانی کی گلیوں میں اپنے رتھ لیے آجارہے تھے‘‘۔
’’واہگہ سے گوادر تک کے کچے گھروں، کھلے بنگلوں، بیرکوں، قلعوں، دفتروں، ڈرائنگ روموں میں بزرگوں کی دوپہریں شامیں راتیں ٹیلی ویژن چینلوں کی حضوری میں گزر رہی تھیں۔ نوجوان یورپی ملکوں کے ویزا آن لائن فارم بھر رہے تھے‘‘۔ ’’عدالتیں اپنے اختیارات ہوا میں معلق دیکھ رہی تھیں‘‘۔’’کلیدی افسر، عمال،حکام، صوبیدار اپنے ہاتھوں کو کچھ کرنے سے روک رہے تھے‘‘۔ ’’سبزیاں اسی طرح مہنگی بک رہی تھیں، دکانداروں کے ترازو اسی طرح ایک طرف جھکے ہوئے تھے۔ گوشت غریب کی دسترس سے اسی طرح دور تھا‘‘۔
بالآخرایک رت جگا حکمرانوں کے چہروں پر مسکراہٹیں، قہقہے لے آیا۔ مسجدوں سے جب یہ آواز بلند ہوئی۔’’ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘ تو راجدھانی میں واٹس ایپ مصروف ہوچکے تھے۔ انگلیوں اور کی بورڈ کا وصال ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ افسانہ اپنے اختتام پر پہنچ چکا تھا۔ سانپ نکل چکا تھا۔ اب صرف لکیر پیٹی جارہی تھی۔ ایک درویش کہہ رہا تھا۔’’ ہم نے کالے سانپ کا زہر نکال دیا ہے‘‘۔ واہگہ سے گوادر تک اس کالے سانپ کی آئی ڈی ذہن میں ابھی پوری طرح مرتسم نہیں ہوئی تھی کہ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند ایک کنوارے نے درویش کے اس جملے میں سے زہر نکالنےکیلئے کالے سانپ کی حقیقی تصویر سامنے رکھ کر اس پر کیپشن جمادی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری۔ گوجرانوالہ یاد آگیا۔ جہاں لانگ مارچ پہنچ چکا تھا، راجدھانی پر یلغار کیلئے، کہیں سے فون آگیا، لانگ مارچ شارٹ ہوگیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوگئے۔ صدر مملکت اس وقت آج والے ہی تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم آج سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔
1973 کے آئین میں 26واں پیوند لگ چکا ہے۔ اکثریتی حصہ گنوانے، عبرت ناک شکست کا سامنا کرنے کے بعد بننے والا آئین بہت ہی سخت جان ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ، محمود علی قصوری، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، مفتی محمود، شیرباز مزاری کا بنایا ہوا آئین۔ ایک پاکستان کے دوران 1956ءمیں بیورو کریٹس کا بنایا ہوا۔ 1962ءمیں فوجی کا وضع کردہ آئین۔ ایک دن کا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرسکے تھے۔
ہر گز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است پہ جریدہ عالم دوام ما
جن کے دل عشق سے زندہ ہوگئے وہ نہیں مرتے۔ دنیا کے اوراق پر ہمارادوام نقش ہے۔ منسوخ ہونے والے 1962ءکے آئین ساز کا پوتا ان ترامیم کا مخالف ہے۔ 1973ءکے آئین والے کا نواسہ آئینی عدالتوں کے دبنگ اعلان سے آئینی بینچ پر قناعت کرگیا ہے۔ دفاع کے وزیر کہہ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے آٹھ جج عمران خان کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ 8 فروری کو پاکستان کے عوام کی خواہش اور کوشش بھی یہی تھی۔ آج بھی کمزور طبقے ایسی ہی تمنائیں رکھتے ہیں۔ کچے گھروں میں ترامیم کی منظوری کے بعد یہی سوال گردش کررہا ہے کہ ’عمران خان‘ کا کیا ہوگا۔ کچے گھر تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں۔ سیلاب آتے ہیں تو بہہ جاتے ہیں۔ حویلیاں کھڑی رہتی ہیں۔ کھدائی کے بعد انہیں دیکھ کر کہا جاتا ہے 5 ہزار سال پہلے لوگ بہت مہذب تھے۔پہلے بھی آئین کی شقیں، کوششیں بے گھر لوگوں کی طرح فٹ پاتھوں پر آرام کرتی رہتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ 90 دن میں الیکشن لازمی کرانے کی شق میں ترمیم کروائی گئی ہے یا نہیں۔
ترامیم ہوچکی ہیں۔ ناپسندیدہ چیف جسٹس کی تقرری روکنےکیلئے حکمت عملی کامیاب رہی۔ اگرچہ اس پر سرکاری خزانے کے کروڑوں خرچ ہوگئے۔ بر صغیر میں انسانیت کے وقار،کشیدگی کے خاتمے کے خواہشمند ایک طالب علم کی حیثیت سے تو مجھے جاتی امرا میں ایک باپ اور بیٹی ہمسایہ ملک کے صحافیوں سے ہنستے مسکراتے اچھے لگے۔ اور یہ حقیقت بھی لائق تحقیق کہ سبزیاں انڈیا سے دبئی کے ذریعے پاکستان آتے آتے باسی اور مہنگی بھی ہوجاتی ہیں۔ ایک دن اس صوفے پر برکھادت اکیلی بیٹھی تھی۔ اس روز بھی یہی فکر تھی کہ شنگھائی کو آپریٹو آرگنائزیشن (ایس سی او) میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو آنا چاہئے تھا۔ اگلے روز بھارتی صحافی زیادہ تعداد میں تھے۔ کراچی میں بیٹھے مجھے مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بھارتی صحافیوں کی جاتی امرا کی یاترا۔ اسلام آباد، دہلی کے سیکرٹریٹ میں طے ہوئی تھی یا یہ ایک غیر سرکاری کوشش تھی۔ پاکستان کی طرف سے یا بھارتی میڈیا کی طرف سے۔ بھارت اور پاکستان کے امن پسند حلقوں میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی آمدورفت کا اتنا ذکر نہیں ہے۔ جتنا تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز سے بھارتی صحافیوں کی ملاقات کا ہے۔ وہ اسے برف پگھلنا تو نہیں کہہ رہے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ سورج کی کرنوں کا رُخ اس گلیشیر کی طرف ہوگیا ہے۔
میاں صاحب کا کہنا ہے کہ مودی صاحب کو آنا چاہئے تھا۔ جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کی خواہش کا اظہار ہے۔ ان کے بھائی اب ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ سمدھی وزیر خارجہ ہیں۔ صاحبزادی سب سے بڑے صوبے ملک کی 60 فی صد سے زیادہ آبادی کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس لیے امید کی جانی چاہئے کہ پاک بھارت تعلقات میں کچھ پیشرفت ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کی مخالف جماعت نیشنل کانفرنس کے قائد ایوان عمر عبداللہ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ یہی موزوں وقت ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا۔ سارے جدید و قدیم علوم افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جہاں دنیا کی گنجان ترین آبادی ہے وہ 77 سال کی مسلسل بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ چار نسلیں نفرتوں، جنگوں میں پلی بڑھی ہیں۔ اگر حالات معمول کے ہوتے تو یہ خطہ اپنی صدیوں کی روایات، اقدار، صلاحیتوں اور اہلیتوں سے کتنا آگے بڑھ جاتا۔ اور دنیا کو قیادت اور طاقت عطا کرتا۔ میاں صاحب کی خواہش بجا ہے کہ وزیر اعظم مودی کو اس کانفرنس میں شرکت کیلئے آنا چاہئے تھا۔ 2007 میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کو کشمیر پر طے شدہ معاہدے پر دستخط کیلئے آنا تھا۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت صدر تھے۔ مگر پاکستان میں چیف جسٹس کی بحالی کی وکلا مہم کو بہانہ بناکر وہ نہیں آئے تو یہ 15سالہ اہم معاہدہ ردی بن کر رہ گیا۔ مزید کتنے کشمیری شہید ہوگئے،کتنے بچے یتیم، کتنی سہاگنیں بیوہ۔ کشمیر اب بھی محکوم ہے۔ بھارتی فوج اب بھی ظلم ڈھارہی ہے۔ بھارت میں جمہوری تسلسل اور شہری آزادیاں کشمیریوں کے کسی کام نہیں آرہی ہیں۔
برکھادت کی بھیرہ کے ڈھابے پر لیپ ٹاپ کھولے پکوڑے کھاتے تصویر دیکھ کر کتنے پاکستانیوں کو جالندھر امرتسر کے ڈھابے یاد آگئے ہیں۔ کوئی ہے جو کلدیپ نیر کی مشعل اٹھالے اور کوئی جو ڈاکٹر مبشر حسن کی شمع لے کر واہگہ کی سرحد پر آجائے۔