جب بھی پاکستان میں کوئی آئینی ترمیم ہوتی ہے تو عدلیہ اور فوج کے ذریعے جمہوریت کو کمزور کرنے والے آئین کے ’’بنیادی ڈھانچے‘‘ کی جگالی کرتے ہوئے یہ نرالی منطق پیش کرتے نظر آتے ہیںکہ یہ آئین سازی بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، لہٰذا عدالتیں مداخلت کر کے اسے کالعدم قرار دیں۔ بھارت میں کیساوندا بھارتی برخلاف ریاست کیرالہ مقدمہ میں یہ تاویل پیش کی گئی جبکہ پاکستان میں عاصمہ جیلانی برخلاف حکومت پنجاب کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اختراع سامنے آئی اور کہا گیا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے دستور کی اساس ہے۔ بعد ازاں آٹھویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں سمیت کئی آئینی مقدمات میں یہ استدلال اختیار کیا گیا۔ ماضی قریب میں جب راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے 18ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو 17میں سے 13جج صاحبان نے قرار دیا کہ اگر کسی آئینی ترمیم میں دستور کے بنیادی خدوخال جیسا کہ جمہوریت ،پارلیمانی طرز حکومت یا پھر عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی کی گئی تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک بنچ نے نیب قوانین میں ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے اس فیصلے کو اٹھا کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان پارلیمنٹ کے چوکیدار نہیں ہیں۔ لیکن بعض لوگ عدلیہ کو پارلیمنٹ کا دربان بنانے پر مصر ہیں اور ان کے پاس دلیل یہی ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
کیا کوئی ماہر قانون اس طالب علم کی رہنمائی کر سکتا ہے کہ آئین کی کس شق میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بنیادی حقوق کا باب اور شخصی آزادیوں سے متعلق حصے کو بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے؟کیا پاکستان کے دستور میں کہیں یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ پارلیمنٹ ان معاملات پر آئین سازی نہیں کر سکتی؟ مجھے تعجب ہوتا ہے جب نامور وکیل اور ماہرین آئین و قانون دستور کے آرٹیکل 239کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 239کی ذیلی شق پانچ میں بہت واضح اور غیر مبہم انداز میں لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو کسی بھی بنیاد پر کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ میں انگریزی الفاظ بھی یہاں نقل کردیتا ہوں تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔’’No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatsoever‘‘
اسی آرٹیکل کی ذیلی شق چھ میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیارات لامحدود ہیں، کوئی سدرۃ المنتہٰی نہیں، کسی قسم کی کوئی روک ٹوک اور قدغن نہیں۔ انگریزی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے ’’For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majlis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution.‘‘یعنی شکوک و شبہات رفع کرنے کیلئے واضح کیا جاتا ہے کہ دستور کی کسی بھی شق میں ترمیم کرنے کیلئے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)کے اختیارات کی کوئی حد نہیں۔ ’’دستور کی کسی بھی شق‘‘کے بعد کیا بنیادی آئینی ڈھانچے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ آئین سازوں نے اپنی غرض و غایت بہت واضح ،سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ اس کے بعد کسی آئینی بنچ ،ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کی طرف سے تشریح و تعبیر بیان کرنے کی حاجت بھی باقی نہیں رہتی ۔اگر جج صاحبان منصف کے منصب پر ہی براجمان رہیں، خود کو مسیحا اور نجات دہندہ نہ سمجھنے لگ پڑیں،جرنیلوں کی طرح سیاست کرنے کے مرض لادوا میں مبتلا نہ ہوں تو آئینی ترمیم کے خلاف دائر ہونے والی درخواستیں رجسٹرار آفس سے ہی بھاری جرمانہ عائد کرکے خارج کردی جائیں ۔مگر یہ عالی مرتبت جج صاحبان متفق علیہ معاملات پر ایسی گوہر افشانیاں کرتے ہیں کہ مجھ ایسے طالب علم حیران رہ جاتے ہیں۔ کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں عوام سے مینڈیٹ لیکر آئین سازی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی سیاسی جماعت پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانا چاہتی ہے ،کسی کو شریعت نافذ کرنے کا شوق ہے، کوئی لبرل اِزم، سیکولر اِزم یا کسی بھی اور اِزم کا دعویدار ہے تو وہ انتخابی مہم کے دوران اس ایجنڈے کو اپنے منشور کا حصہ بنائے،اگر اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے تو پارلیمنٹ میںآئینی ترمیم لا کر اپنی مرضی کا نظام نافذ کرلے ،کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔تو کیا کسی آئینی ترمیم کو کسی بنیاد پر کسی عدالت کے روبرو چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟ ہرگز نہیں۔ میری دانست میں صرف ایک صورت میں ایسا ممکن ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکے اور وہ ہے طے شدہ طریقہ کار میںگڑ بڑ۔ ایک سیاسی جماعت نے یہ کہہ کر ووٹ لئے کہ ہم قومی احتساب بیورو کو مضبوط بنائیں گے، لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے مگر وہ اقتدار میں آکراس کے برخلاف قانون سازی کرتی ہے اور احتساب کرنے والے اداروں کو یکسر ختم کر دیا جاتا ہے تو اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی قرار داد آجائے تو اس پر ووٹنگ ہو گی لیکن ووٹنگ کروائے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ ایوان میں 39ارکان والی پارٹی جیت جاتی ہے اور 66ارکان والی جماعت کو ہرا دیا جاتا ہے تو انصاف کی دہائی دی جا سکتی ہے۔ اگر کسی آئینی ترمیم کے دوران یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مطلوبہ اکثریت میسر نہیں تھی یا پھر ارکان پارلیمنٹ سے دھونس، دھاندلی اور جبر کی بنیاد پر زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے ہیں تو ایسی صورت میں بھی عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے مگر یہ بنیادی آئینی ڈھانچے والا ڈھکوسلہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ لہٰذا کسی نے 26ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہے تو کم ازکم استدلال اور منطق ہی بدل لی جائے۔