• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آج سے 77سال پہلے کی بات ہے جب تقسیمِ ہند کے بعد ریاست جموں وکشمیر میں ڈوگرہ رَاج کے مسلمانوں پر مظالم ہر حد عبور کرنے لگے، تب آزاد قبائل کے غیور مسلمان اپنے بھائیوں کو قتلِ عام سے محفوظ رکھنےکیلئے کشمیر کی حدود میں داخل ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ بھارتی کابینہ کو کشمیر میں قبائلی یلغار کی اطلاع ملی، تو وہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ایک پہلے سے آئی ہوئی درخواست پر جلدی میں اسلحہ و بارود بھیجنے کی خواہاں تھی، لیکن ماؤنٹ بیٹن نے زور دِیا کہ پہلے ریاست کا الحاق حاصل کر لیا جائے۔ الحاق حاصل کرنے کے نام پر بھارتی حکومت نے جس عیاری اور اِنتہا درجے کی دروغ گوئی سے کام لیا، اُس کا احوال ایلسٹیر لیمب (Alastair Lamb) نے اپنی کتاب Incomplete Partition میں بیان کیا ہے اور جھوٹ کا پول کھول دیا ہے۔ انڈین حکومت نے ایک دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وزیرِداخلہ سردار پٹیل کا قابلِ اعتماد سرکاری افسر وی-پی-مینن 26؍اکتوبر کو جموں گیا جہاں مہاراجہ سری نگر سے آ چکا تھا اور اُس نے الحاق کے کاغذات پر دستخط کر کے اُس کے حوالے کر دیے تھے۔ الحاق کی دستاویز حاصل کرنے کے بعد27؍اکتوبر کی صبح سری نگر ایئرپورٹ پر بھارتی فوجیں اُتاری گئیں کہ ریاست میں خوں ریزی کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ مسٹر لیمب نے ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے کہ وی -پی-مینن 26؍ اکتوبر کو جموں نہیں گیا اور اُس روز الحاق کی دستاویز پر دستخط کی پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے جس نے انتہائی سنگین نتائج پیدا کیے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب کے چھٹے باب ’الحاق کا بحران‘ میں بھارتی قیادت اور ماؤنٹ بیٹن کی چالاکی اورکذب بیانی پوری طرح بےنقاب کر دی ہے اور پاکستان کی نیک نیتی اور اَمن پسندی کی شہادت دی ہے۔وی-پی-مینن نے، جس کے گرد بھارت سے کشمیر کے الحاق کی من گھڑت کہانی گھومتی ہے، 1956میں شائع ہونے والی اپنی یاددَاشتوں میں لکھا ہے کہ وہ کشمیر کے وزیرِ اعظم مہر چند مہاجن کے ساتھ 26؍ اکتوبر کو جموں گیا اور مہاراجہ نے دستاویزِ الحاق پر دستخط کیے۔ مہاجن نے اپنی شائع شدہ یاددَاشتوں میں وی-پی-مینن کے ساتھ جموں جانے کی تردید کی۔ اِس طرح وی-پی-مینن کا جموں جانا مشتبہ ہو گیا۔ اِس کے علاوہ دِہلی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر الیگزنڈر سائمن نے 26؍ اکتوبر کے واقعات اپنی ڈائری میں لکھے جو اگلے روز ڈی-او کی شکل میں دولتِ مشترکہ کے ریلیشنز افسر آرچبالڈ کارٹر کو بھیجے گئے۔ یہ اہم دستاویز برٹش آرکائیوز میں آج بھی محفوظ ہے۔ یہی ڈی-او پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر گرافٹی سمتھ کو بھی ارسال کی گئی۔ اِس دستاویز کا کورنگ لیٹر بھی وکٹوریہ شوفیلڈ نے اپنی کتاب Kashmir in the Crossfire میں شائع کیا ہے (لندن، 1996، ص 147) ۔سائمن نے ریکارڈ کیا ہے کہ اُس نے 26؍ اکتوبر کی دوپہر ایک ضروری ملاقات کیلئے وی-پی-مینن کو فون کیا۔ اُس نے کہا کہ آج اِس لیے ملاقات ناممکن ہے کہ اُسے فوری طور پر جموں کی طرف پرواز کرنا ہے۔ سائمن دہلی کے ایئرپورٹ ولنگڈن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وی-پی-مینن پالم ایئر پورٹ پر ہے۔ سائمن جلداز جلد وہاں پہنچا جہاں وی-پی-مینن واپس دہلی جانےکیلئے تیار بیٹھا تھا کہ ہوائی جہاز رات سے پہلے جموں ایئرپورٹ پر اُتر نہیں سکتا تھا۔ وہ دونوں اپنی اپنی کاروں میں دہلی آ گئے۔ وی-پی-مینن نے سائمن سے کہا اب وہ اَگلے دن یعنی 27؍اکتوبر کو جموں جائے گا، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وی-پی-مینن 26؍اکتوبر کی دوپہر ڈیفنس کمیٹی کو یہ اطلاع دے چکا تھا کہ مہاراجہ نے دستاویزِ الحاق پر دستخط کر دیے ہیں، جبکہ تمام دستیاب تاریخی دستاویزات اِس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ جب 27؍ اکتوبر کی صبح نو بجے انڈین فوج طیاروں کے ذریعے سری نگر ایئرپورٹ پر اُتر رہی تھی، تب تک دستاویزِ الحاق پر دستخط نہیں ہوئے تھے اور بھارت نے ریاستِ جموں وکشمیر میں جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔

سری نگر ایئرپورٹ پر فوجیں اُتارنے سے پہلے حکومتِ ہند کے پاس مکمل دستاویزِ الحاق نہیں تھی جس کا اعتراف خود ماؤنٹ بیٹن نے 26؍اکتوبر کی رات آئن سٹیفنز سے کھانے کی میز پر کیا۔ اُس نے اپنی کتاب ’پاکستان‘ میں یہ انکشاف بھی شامل کیا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ مہاراجہ کی طرف سے باقاعدہ الحاق کی دستاویز پر ابھی کام ہو رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام ابھی نامکمل تھا۔

وی-پی-مینن کی شائع شدہ کہانی اِس حوالے سے بھی حقائق کے منافی ہے کہ 26؍اکتوبر کی رات تک مہاراجہ جموں پہنچا ہی نہیں تھا، اِس لیے دستاویزِ الحاق پر دستخط حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ دہلی میں دستاویزِ الحاق پر مہاراجہ کے دستخط ہونے کی افواہ 26؍ اکتوبرکی دوپہر ہی کو پھیلا دی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ کشمیر باقاعدہ اِنڈیا سے الحاق کر چکا ہے اور اُس کی حفاظت اب حکومتِ ہند کی ذمے داری ہے۔ سرکاری دستاویزات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ حکومتِ ہند نے ریاستِ جموں و کشمیر میں فوجیں اُتارنےکی تیاریاں 25؍ اکتوبر ہی سے شروع کر دی تھیں۔ مہاراجہ نے ایک خط میں لکھا کہ مَیں دستاویزِ الحاق ساتھ نتھی کر رَہا ہوں۔ یہ دستاویزِ الحاق اِس خط کے ساتھ نتھی نہیں تھی اور کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی۔ باقاعدہ دَستاویز کا متن ریاستِ جموں و کشمیر کے آرکائیوز میں بھی موجود نہیں۔

کشمیر پر بھارتی حملے کی خبر قائدِاعظم کو ملی، تو اُنہوں نے بھارت سے کشمیر کا الحاق فراڈ قرار دَیتے ہوئے فوراً پاکستان کے قائم مقام کمانڈر اِن چیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم دیا۔ اُس نے عمل درآمد کرنے کے بجائے دہلی میں فیلڈ مارشل آکنلک سے فون پر رابطہ کیا۔ آکنلک اگلے روز قائدِ اعظم سے ملنے لاہور آئے اور اُن سے اپنے احکام واپس لینےکیلئے کہا ’’کیونکہ دو مملکتوں کے مابین تصادم کی صورت میں ہمیں پاکستانی افواج سے تمام انگریز افسر واپس بلانا پڑیں گے۔‘‘ قائدِ اعظم کو بادلِ نخواستہ اپنے احکام واپس لینے پڑے جس کا پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یوں 27؍اکتوبر انسانی تاریخ میں ایک انتہائی تاریک دن ثابت ہوا۔

تازہ ترین