یہ خبر سن کر مجھے خاصی خوشی ہے کہ حکومت ِپاکستان کی طرف سےڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے ایک وفد امریکہ جارہا ہے جس میں پارلمنٹیرین، ملٹری آفیشلز اور ڈاکٹر زشامل ہیں۔ یقیناً اس وفدکے اس دورے پر ہزاروں ڈالر لاگت آئے گی مگر پہلی بار دنیا کو احساس ہوگا کہ اکیس سال سے قید پاکستانی خاتون کےلیے حکومتِ پاکستا ن کی طرف سے کوئی توآیا ہے۔حکومت نے چلو قوم کی کسی بیٹی کی تو خبر لی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ پاکستانیوں سے اتنی مایوس ہے کہ جب اسے جیل میں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پاکستانی اسے ملنے آیا ہے تو وہ ملنے سے انکار کر دیتی ہے ۔لیکن پاکستانیوں کے دل ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کےلئے دھڑکتے رہے ۔وہ اس کےلئے آواز بلند کرتے رہے ۔اہل قلم نے بھی اس کےلئے بہت کچھ لکھا
سعداللہ شاہ کی ڈاکٹر عافیہ پر کہی ہوئی نظم کا ایک شعر دیکھئے
یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک مومنہ ،اب لشکروں پہ بھاری ہے
میں نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کےلئے ایک نظم کہی تھی۔وہ بھی سن لیجئے
گونجتے ہیں روح میں
بجلیوں کے ننگے تار
بار بار
بار بار
ناخنوں کے زخم
کھینچنے کے کرب سے گزرتے ہیں
پیپ سے بھرئے ہوئے
جنبشِ بدن ہوئی
ہرے ہوئے
موت کی اذیتیں
درد سے بھرا شکم
برہنگی ہے وہ کہ آئے شرم اپنے آپ سے
اور ایسے وقت میں
سگریٹیں بجھائی جارہی ہیں جسم پر
ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں
پائوں میں ہیں بیڑیاں
لوہے کے فصیل در فصیل ایک خول میں
فرش سرد آگ میں تپا ہواہے وقت کا
جرم بھی تو کوئی کم نہیں ترا
کار بند تُورہی ہےسنتِ رسول پر
زندگی گزارنے کے خوبرو اصول پر
اے خدائے کن فکاں
یہ عرصہ ’حاصل حیات‘ ہے ،قبول کر ‘‘۔
پرویز مشرف کے دور میں قوم کی بیٹیوں اور بیٹوں کو بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ایک مبینہ دہشت گرد کی حوالگی پر امریکہ سےپانچ ہزار ڈالر ملا کرتے تھے۔حکومت پاکستان نے آج تک صرف ڈاکٹر قدیر خان کی حوالگی سے انکار کیا ۔باقی امریکہ نے جو مانگا جسے مانگا ہم نے پیش کردیا۔ شاید پہلا شخص ایمل کانسی شہید تھا جسے ہم نے امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ اپنے لوگوں کے عوض ملنے والی رقم کا ریکارڈ کھول کر دیکھا جائے تو اس میں عافیہ صدیقی کا بھی اندراج موجود ہے ۔جس کےلئے امریکہ نےحکومت ِپاکستان کو پانچ ہزار ڈالر معاوضہ دیا تھا۔
ہمارے یہاں مجاہدوں اور دہشت گردوں میں ایک باریک سی لائن موجود ہے مگر دنیا اب اس لکیر کو تسلیم نہیں کرتی ۔ ایک زمانے میں توافغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے تمام مسلمان مجاہد تھے مگر وقت نے پھر کروٹ لی اورواشنگٹن نے اپنا عقیدہ بدل لیا ۔مجاہدین دہشت گرد قرار پا گئے ۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو دہشت گرد وں کی حکومت قرار دے دیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ طالبان حکومت کے سفیر بھی گوانتاناموبے پہنچا دیے گئے ۔ پاکستان میں افغانی سفیر ملا ضعیف کی کہانی انسانی تاریخ میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتی۔ پھر گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاحیں وضع ہوئیں خود کش دھماکے جاری رہے ۔بے گناہوں کی لاشوں کے لوتھڑے دیواروں پرچپکے ہوئے دکھائی دیتے رہے۔ حتیٰ کہ اسکول کے ڈیڑھ سو بچے بھی اسی جنگ میں قربان کر دیے گئے۔
حکومتوں کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام گڈ طالبان میں شامل کیا جائے یا بیڈ طالبان میں۔ عوام میں تقسیم رہی ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کےلیے عوامی دباؤ زیادہ نہ بڑھ سکامگر وقتاً فوقتاً اہلِ درد آواز بلند کرتے رہے۔ اس وقت بھی اس کی رہائی کےلیے کوششیں جاری ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکی صدر کو خط بھی لکھا ہے۔وفد بھی جارہا ہے مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ پرہے کہ یہ وہاں جا کر کیا کرے گا۔ اگر صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت کا جائزہ لینا ہے تو وہ وہاں سے کوئی پاکستانی ڈاکٹر جیل میں بھیجا جا سکتا ہےاور اس وفد کا مقصد امریکی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے گفت و شنید کرنا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔کیونکہ اس کی رہائی میں سب سےبڑا مسئلہ اس کا امریکی نیشنل ہوناہے۔آخر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کےلئے لکھا گیا ایک گیت
یہ کائناتِ بدن چھائونی بنا دی ہے
یہ کس نے جنگ مری زندگی بنا دی ہے
دماغ اسلحہ خانہ بنا دیا ہے مرا
عمل اجل کا دہانہ بنا دیا ہے مرا
تمام جلد مری آہنی بنا دی ہے
یہ کس نے جنگ مری زندگی بنادی ہے
نماز گاہ کے اسرار کھولتی انگلی
یہ پانچ وقت شہادت کی بولتی انگلی
مشین گن کی سیہ لبلبی بنا دی ہے
یہ کس نے جنگ مری زندگی بنا دی ہے
یہ نقشِ پا نہیں بارود کی سرنگیں ہیں
یہ است گاہ نہیں بود کی سرنگیں ہیں
بموں کی آگ مری روشنی بنا دی ہے
یہ کس نے جنگ مری زندگی بنا دی ہے