• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کوئی نظام مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکا‘ پھر چاہے سیاسی نظام ہویا معاشی نظام اور تو اور ہمارے ہاں عدالتی نظام بھی شروع سے اب تک مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکا، پاکستان کےابتدائی عرصے کا جائزہ لیں تو سخت افسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کبھی غیر منتخب گورنر جنرل غلام محمد کی محکوم نظر آئی مگر آگے چل کر یہ بھی دیکھا گیا کہ سپریم کورٹ کبھی ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حکومت کو کلیئر کرکے چلاتی تھی تو کبھی دوسری مارشل لا گورنمنٹ کو چلایا جاتا تھا‘ چاہے ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا یا چاہے جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا ہو ۔

مگر ان دنوں جو صورتحال رہی پہلے کبھی نہ تھی۔ سپریم کورٹ کے جج ایک دوسرے کے خلاف بولتے رہے‘ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا‘ گزشتہ کچھ دنوں سے اس بات پر بھی اختلاف تھا کہ آئینی ترمیم میں عدلیہ کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے‘ بہرحال گزشتہ اتوار کو 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی ہے‘ اس پر بھی پارلیمنٹ کے بعض ممبران میں اختلافات ہیں اور اس ترمیم کے ابتدائی جائزے کے نتیجے میں نہ فقط قانونی ماہرین مگر کئی اور حلقوں میں اب بھی گو مگو کی صورتحال ہے ۔آئینی ترمیم کے معاملے پر میرا کچھ قانونی ماہرین اور ممتاز دانشوروں سے تبادلہ خیال ہوا ہے،جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس ملک کو حقیقی بنیادوں پر چلانا ہے تو پھر ہماری عدلیہ کو ایسی بنیادوںپر کھڑا کرنا پڑےگا کہ ہر ایک کو انصاف مل سکے۔

کچھ ممتاز قانونی ماہرین اور دانشوروں کی طرف سے اس سلسلے میں جو چند اہم تجاویز سامنے آئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں جس طرح کہ ’’چارٹر آف ڈیمو کریسی‘‘ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک وفاقی آئینی عدالت ہوگی جس میں سارے صوبوں کی مساوی نمائندگی ہوگی‘ قانونی ماہرین کی دوسری تجویز پیش کرنے سے پہلے اس پہلی تجویز کی وضاحت کرتا ہوں کہ یہ بھی طے کیا جائے کہ وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس ہر صوبے سے مقرر کیا جائے ، وہ اس طرح کہ ہر صوبے سے ہونےوالے چیف جسٹس کی ایک مدت ہو‘ وہی مدت ہر صوبے سے ہونے والے چیف جسٹس کی ہو‘ اس طرح وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس مساوی بنیادوں پر چاروں صوبوں میںRotateکرے۔

قانونی ماہرین اور کچھ دانشوروں کی طرف سے جو دوسری تجویز پیش کی گئی وہ یہ ہےکہ ہر صوبے کی اپنی الگ سپریم کورٹ بنائی جائے جو اپیل کرنےکی آخری عدالت ہوگی‘ سول سروسز آف پاکستان کی طرز پر پاکستان کی جوڈیشل سروسز کیلئے ایک نیا سروس کا ڈھانچہ (اسٹرکچر) بھی تیار کیا جائے ، ہائی کورٹ کی سطح پر ممتاز وکلا چارٹر آف ڈیمو کریسی میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق براہ راست سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوسکیں۔، ہائی کورٹ کے ججوں کی ریٹائرڈ ہونے کی عمر سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائر ہونے والے ججوں جتنی ہو یعنی بڑھا کر 67سال کی جائے ،ریٹائر ہونے والے ججوں کو پنشن کے مکمل فوائد ملیں مگر انہیں حکومت میں کوئی دوسری ذمہ داری نہ دی جائے اور نہ ہی ان کو کوئی ملازمت ملے ، کافی تعداد میں پرائمری سطح کی عدالتیں مندرجہ ذیل برانچز میں قائم کی جائیں ۔

لیبر کورٹس، ہاری کورٹس، فیملی کورٹس، ہیومن رائٹس کورٹس، بینکنگ کورٹس، کنزیومر پروٹیکشن کورٹس، رینٹ کورٹس، ڈرگ کورٹس، اینٹی کرپشن کورٹس، کرمنل کورٹس، سول کورٹس، ری کنسیلیشن کورٹس اور اینٹی ٹیررازم کورٹس۔ سول نوعیت کے تنازعات میں عدالتوں سے باہر ثالثی‘ دوستانہ تعاون اور تصفیہ کے ذریعے فیصلے کرنے کی ہمت افزائی کی جائے، سول نوعیت کے تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کیلئے گائوں‘ یونین کونسل پنچائیت سے بیوپار اور صنعت اور چیمبرز آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی سطح تک ثالثی کی کونسلیں قائم کی جانی چاہئیںجوسول تنازعات میں ثالثی کرائیں‘ یہ ساری ثالثی کی کونسلیں منتخب ہوں ان کو یہ کام کرنے پر اعزازی رقم ادا کی جائے اور پراسیکیوٹر جنرل کے آفس کو مستحکم کیا جائے تاکہ وہ خود مختار بن جائے‘اس طرح پراسیکیوٹر جنرل محض پوسٹ آفس کی حیثیت میںکام نہیں کرے گا‘ پراسیکیوٹر جنرل اس حیثیت میں ہوں گے کہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کون سے کیسز قانون کی عدالت میں پیش کئے جائیں اور کون سے نہیں۔

تازہ ترین