اس سال زراعت کے شعبے کی جی ڈی پی میں 6.25فیصد شاندار گروتھ کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی 2.5فیصد تک پہنچ سکی کیونکہ صنعت اور خدمات کے شعبے اپنے گروتھ کے اہداف حاصل نہیں کرسکے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اس سال گندم، کپاس، گنے اور چاول کی بمپر فصلیں دیں جس سے ہم نہ صرف مقامی طور پر زرعی اجناس میں خود کفیل ہوئے بلکہ انکی ایکسپورٹ سے زرمبادلہ بھی حاصل کیا۔ زرعی اجناس کی اچھی فصل کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کی ایکسپورٹ 57فیصد اضافے سے 4.3ارب ڈالر رہیں جبکہ انکی امپورٹ 21 فیصد کمی سے 4.72ارب ڈالر تک محدود رہی۔ گزشتہ کئی سالوں سے کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ میں اضافے سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہورہا تھا جو زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو ڈال رہا تھا۔ اس سال ہماری مجموعی ایکسپورٹس 10.5فیصد اضافے سے 30.6ارب ڈالر جبکہ امپورٹ کم ہو کر 54.7ارب ڈالر رہی جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 12.3فیصد کم ہوکر 24 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال 27.5ارب ڈالر تھا۔ پاکستان اس وقت دنیا میں چاول ایکسپورٹ کرنیوالا چوتھا بڑا ملک ہے جس کا عالمی مارکیٹ میں شیئر 8.5فیصد ہے۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے مطابق پاکستان میں چاول کی سالانہ پیداوار 90لاکھ ٹن ہے جس میں 45لاکھ ٹن باسمتی جبکہ باقی دیگر اقسام ہیں۔ 45لاکھ ٹن باسمتی چاول میں مقامی طور پر کھپت 30لاکھ ٹن ہے جبکہ باقی 1500لاکھ ٹن باسمتی چاول ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے۔ اس سال بھارت میں چاول کی پیداوار میں کمی کے باعث ایکسپورٹ پر پابندی کی وجہ سے پاکستانی چاول کی عالمی مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوا اور 2023-24ءکے پہلے 10مہینوں جولائی سے اپریل کے دوران چاول کی ایکسپورٹ 95 فیصد اضافے سے 5ملین ٹن رہی جس کی مالیت تقریباً 4ارب ڈالر تھی جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران چاول کی ایکسپورٹ 3.2ملین ٹن تھی جس کی مالیت 2.12 ارب ڈالر تھی۔ پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ کے 10بڑے ممالک میں پہلے نمبر پر چین کا شیئر 15.5فیصد (361ملین ڈالر)، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات کا شیئر 10.1فیصد (235ملین ڈالر)، تیسرے نمبر پر افغانستان کا شیئر 7.59فیصد (176 ملین ڈالر)، چوتھے نمبر پر کینیا کا شیئر 7.56فیصد (175ملین ڈالر)، پانچویں نمبر پر ملائیشیا کا شیئر 6.55فیصد (152 ملین ڈالر)، چھٹے نمبر پر سعودی عرب کا شیئر 4.6 فیصد (106 ملین ڈالر) ہے جبکہ دیگر ممالک میں اٹلی، قازقستان، برطانیہ، عمان اور جنوبی کوریا شامل ہیں جو 3 سے 4 فیصد شیئر رکھتے ہیں۔ مراکش، یمن اور افریقی ممالک پاکستانی باسمتی چاول کی پوٹینشل مارکیٹس ہوسکتےہیں۔
بھارت دنیا میں چاول ایکسپورٹ کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی منڈی میں بھارت کا شیئر 40فیصد سے زیادہ ہے لیکن2023ءمیں بھارت نے مقامی مارکیٹ میں چاول کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے چاول کی ایکسپورٹ پر 20فیصد ایکسپورٹ ڈیوٹی عائد کردی تھی جس سے بھارتی باسمتی اور دیگر چاول کی ایکسپورٹ 22ملین ٹن سے کم ہوکر صرف 4ملین ٹن پر آگئی تھی جس سے پاکستان کو فائدہ ہوا اور پاکستان نے 5ملین ٹن چاول ایکسپورٹ کرکے 4ارب ڈالر زرمبادلہ حاصل کیا۔ دنیا میں چاول ایکسپورٹ کرنیوالے دیگر بڑے ممالک میں تھائی لینڈ کی ایکسپورٹ 4ارب ڈالر، ویتنام 2.5ارب ڈالر، امریکہ 1.7ارب ڈالر اور چین ایک ارب ڈالر شامل ہیں۔ 1960 ء کے بعد پاکستان سے چاول کی ایکسپورٹ کی اچھی کارکردگی کو ہم دوسرا گرین انقلاب کہہ سکتے ہیں جس کی بڑی وجہ نجی شعبے کو ہائبرڈ بیجوں کی دستیابی ہے لیکن 2023 میں پاکستان کے رائس ایکسپورٹرز کو چاول کی پیداوار کیلئے غیر معیاری ادویات کے استعمال اور باسمتی چاول میں کیڑے مار ادویات کی باقیات (MRLs) کے باعث امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے فوڈ سیفٹی کیلئے الرٹ نوٹسز بھیجے گئے ہیں اور بھارت کے مقابلے میں پاکستانی باسمتی چاولوں میں MRLs کی زیادہ شکایتیں آئی ہیں۔ حکومت اور زرعی ادویات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو چاہئے کہ باسمتی چاول میں MRLs کی شکایتوں کی روک تھام کیلئے چاول کے کاشتکاروں میں آگاہی مہم چلائے۔ اس کے علاوہ چاول، گندم، مکئی، سویا بین اور دیگر فصلوں کی کٹائی کے وقت پہنچنے والے نقصانات کو روکنے کیلئے کمبائن ہارویسٹر استعمال کیا جائے۔ چاول اور اس سے حاصل ہونے والی مصنوعات کو کھیتوں میں خشک کرنے کے جدید طریقوں کا استعمال، ہائبرڈ بیجوں کی دستیابی اور زرعی ادویات کی باقیات کو کنٹرول کرنے کے جدید طریقوں سے بھی کاشتکاروں کو آگاہی دی جائے تاکہ پاکستان ، مغربی ممالک کی چاول کی ایکسپورٹ پر ممکنہ پابندیوں سے بچ سکے۔ میری SIFC کو تجویز ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔ میں نے قومی اسمبلی میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا تھا تاکہ حکومتی سطح پر اس اہم مسئلے کے حل کیلئے فوری اقدامات کیےجائیں اورعالمی مارکیٹ میں پاکستانی چاول کا اضافی شیئر برقرار رہ سکے۔