• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے روایتی مخاصمت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی ڈھانچوں کو جدید دور کے مطابق ڈھالنے کے مواقع فراہم کرنے والی تنظیم برکس میں پاکستان کی مخالفت کرکے اسے تنظیم کا رکن نہیں بننے دیااور اس طرح نہ صرف علاقائی تعاون کے فروغ میں مثبت کردار ادا کرنے کا نادر موقع کھودیابلکہ عالمی برادری میں اپنی رہی سہی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔کازان میں منعقدہ برکس فورم کے اجلاس میں روس نے خاص طور پر پاکستان کو تنظیم کی رکنیت دلانے کیلئے اپنا پورا اثرورسوخ استعمال کیا لیکن بھارت کی مخالفت کے باعث اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکااور یوں پاکستان برکس کا رکن نہیں بن سکا۔اگرچہ رکن نہ ہونے کے باعث اجلاس میں پاکستان کا کوئی وفد شریک نہ تھا لیکن ذرائع ابلاغ کے نمائندے باقاعدہ دعوت پر موجود تھے۔اجلاس اس لیے بھی اہم تھا کہ برکس کے ڈویلپمنٹ بینک نے ترقی پذیر رکن ملکوں کے ایک سو منصوبوں کیلئے 35ارب ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کا اہتمام کیا ہےجو پاکستان کی معاشی بحالی کیلئے بڑی افادیت کا حامل ہے۔پاکستان کے ساتھ ترکی اور بعض دوسرے ممالک بھی بھارت کی مخالفت کا نشانہ بن گئے۔برکس عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کی معاونت کاایک اہم پلیٹ فارم ہے۔اس نے رکن ممالک کی جامع ترقی کی راہیں کھول دی ہیں۔اس لحاظ سے برکس کی رکنیت پاکستان کیلئے بہت فائدہ مند ہے۔کازان اجلاس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے پاکستان اور روس کے تعلقات میںدوستی اور تعاون کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے،جو خطے میں کئی لحاظ سے دوررس نتائج کا حامل ہے۔اجلاس میں چینی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے حالات جتنی مشکلات کا شکار ہیں ،اتنا ہی ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔لیکن بھارت نے پاکستان اور دوسرے ممالک کی رکنیت کی مخالفت کرکے اقتصادی تعاون کا یہ پیغام ٹھکرادیا۔پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے بھی واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا ہےجس میں بھارت سے اپنی تجارت کو وسعت دینا بھی شامل ہے۔پاک بھارت تجارت سے دونوں ملکوں کی نہ صرف پونے دو ارب آبادی کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ برسوں پرانے تنازعات بھی حل ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت اس حوالے سے ایک اہم پیشرفت تھی۔بھارتی وفد کے پاکستان میں قیام کے دوران کوئی اختلافی مسئلہ نہیں اٹھایا گیا ،جس سے باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک اچھا تاثر اجاگر ہوا۔اسے مزید آگے بڑھاکر دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا جاسکتا تھا اور اس حوالے سے برکس کی رکنیت کے لیے بھارت کی طرف سے پاکستان کی حمایت ایک خوشگوار پیشرفت ہوتی مگر لگتا ہے کہ بھارت کی ہندوتواحکومت پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔وزیرخزانہ محمداورنگ زیب کے مطابق پاکستان برکس کا رکن اس لئے بننا چاہتا ہے کہ اپنی تجارت کو وسعت دے سکےجو اس تنظیم کا اساسی مقصد ہے۔پاکستان معاشی بحالی کیلئے جو اقدامات کررہا ہے ،اس کے مثبت نتائج بتدریج سامنے آرہے ہیںاور بین الاقوامی مالیاتی تنظیمیں اس کا اعتراف کررہی ہیں ۔برکس میں شمولیت اس کی کوششوں کو مزید آگے بڑھاسکتی ہے جو عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی بہتری کیلئے مواقع فراہم کرنے میں مصروف ہے۔توقع کی جاسکتی ہے کہ بھارت زیادہ دیر تک پاکستان کو اس تنظیم میں شمولیت سے روک نہیں سکے گا۔

تازہ ترین