’’اس بدتمیز لڑکی کو سبق سکھانا بہت ضروری تھا‘‘ یہ جملہ میں نے اس وقت سنا تھا جب عمران خان وزیراعظم تھے اور اسلام آباد پولیس نے ایمان مزاری پر غداری کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔ ایمان مزاری پر الزام تھا کہ انہوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بلوچ طلبا کے ایک مظاہرے میں محسن داوڑ کے ہمراہ ریاست کے خلاف قابل اعتراض گفتگو کی۔ معاملہ یہ تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بلوچ طلبا کو شکایت تھی کہ ایک ریاستی ادارے کا ایک افسر یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد سے انہیں صرف انکی بلوچ شناخت کی وجہ سے ڈرا دھمکا رہا تھا۔ اس افسر کی یونیورسٹی میں آمدورفت کے بعد کچھ بلوچ طلبا لاپتہ ہو چکے تھے لہٰذا یونیورسٹی کے بلوچ طلبا کا صرف یہ مطالبہ تھا کہ اگر ہم کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تو ہمیں تعلیم حاصل کرنے دی جائے اور ڈرا دھمکا کر یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
ایمان مزاری نے ناصرف ان طلبا کے مطالبے کی حمایت کی بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی جس میں ان طلبا کو انکی بلوچ شناخت کی وجہ سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ایمان مزاری پر تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر سیل کر دی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر ایف آئی آر کی نقل ملزمہ کو فراہم کی گئی تو اس میں ریاست کے خلاف بغاوت کا الزام تھا۔ میں نے ایمان مزاری اور محسن داوڑ پر دفعہ 124اے کے تحت مقدمے کے اندراج کو نو آبادیاتی قانون کا غلط استعمال قرار دیا تو ایک ریاستی ادارے کے اعلیٰ افسر نے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ پر تو پہلے ہی نو ماہ سے پابندی ہے آپ ایمان مزاری کی حمایت کر کے اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے اس اعلیٰ افسر کو بڑی شائستگی سے کہا کہ جناب مجھے پابندی ختم کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ پابندی کے بعد میں نے جس آزادی کا مزا چکھا ہے وہ پابندی کے ختم ہونے پر واپس چلی جائے گی۔ اس افسر نے اپنے لہجے میں عاجزی پیدا کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ کچھ دنوں کیلئے غیر ملکی میڈیا پر ایمان مزاری کی حمایت نہ کریں کیونکہ اس لڑکی نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی میں نے پوچھا کہ ایمان کی والدہ ڈاکٹر شیریں مزاری وفاقی وزیر ہیں آپ ان سے بات کریں مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحبہ اس معاملے میں بے بس ہیں۔
حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کے پاس انسانی حقوق کی وزارت تھی انہوں نے صحافیوں کے تحفظ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قوانین کے جو مسودے تیار کئے تھے ان پر اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان سے خوش نہیں تھے۔ میں نے مذکو رہ افسر کو بتایا کہ ایمان مزاری ایک لاپتہ صحافی مدثر نارو کی والدہ کی وکیل ہیں لہٰذا میں ایمان مزاری پر کسی غلط مقدمے کی مذمت سے باز نہیں آئوں گا۔ میرے اس اعلان پر فضا میں انگلی لہرا کر کہا گیا کہ ’’میر صاحب دیکھ لینا ہم اس بدتمیز لڑکی کو سبق سکھا کر رہیں گے‘‘ جس عزم و استقلال سے یہ بات کہی گئی تو میں پریشان ہوگیا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری اور محسن داوڑ کے خلاف غداری کا یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔ کچھ دن بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان ہوا تو حکومت کا سیاسی رعب و دبدبہ آدھا رہ گیا مجھ پر پابندی ختم ہوگئی لیکن بہت سے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ چند ہفتوں میں حالات اتنے بدل گئے کہ وہ خواتین و حضرات جو مجھ پر پابندی کی حمایت کرتے رہے اب ان پر پابندیاں لگ رہی تھیں۔ نئے دور کی نئی پابندیوں کے شکار ساتھی مدد کیلئے میرے پاس آتے اور میں انہیں ایمان مزاری کے پاس بھیج دیتا تھا، وہ بدتمیز لڑکی جو تحریک انصاف کے دور حکومت میں مشکلات کا شکار رہی اب تحریک انصاف کے حامی اسی بدتمیز لڑکی سے مدد مانگ رہے تھے۔ ایمان مزاری کی والدہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی سیاسی وفاداری تبدیل کرانے کیلئے ان پر ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرایا گیا۔ اس مقدمے میں انکی ضمانت ہوگئی تو ایک اور مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی اس ناانصافی پر ایمان مزاری نے جنرل باجوہ کے بارے میں کچھ نامناسب ریمارکس دے دیئے۔ 26مئی 2022ء کو رمنا پولیس اسٹیشن اسلام آباد میں ایمان مزاری کے خلاف تعزیزات پاکستان کی دفعہ 505کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور مدعی جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) برانچ جی ایچ کیو کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل ہمایوں افتخار تھے، ایک حاضر سروس فوجی افسر بدتمیز لڑکی کے خلاف خود مدعی بن گیا تھا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو ایمان کی وکیل زینب جنجوعہ نے جنرل باجوہ کے بارے میں کہے گئے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا۔ جیگ برانچ کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ افسوس کا اظہار قابل قبول نہیں ایمان مزاری میڈیا پر جنرل باجوہ سے معافی مانگے، جنرل باجوہ کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی۔ عدالت نے یہ مقدمہ نمٹا دیا کیونکہ اسکی قانونی بنیاد بہت کمزور تھی۔
نومبر 2022ء میں جنرل باجوہ قصہِ ماضی بن گئے لیکن ایمان مزاری کی بدتمیزیاں ختم نہ ہوئیں۔ ستمبر2023ء میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں تقریر پر ایمان مزاری کو غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں ضمانت ہوئی تو دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ رہائی کے بعد ایمان مزاری نے اپنے ایک ساتھی وکیل ہادی علی چٹھہ سے شادی کرلی، شادی کے بعد چٹھہ صاحب بھی ایمان کی بدتمیزیوں میں شریک ہوگئے۔ ایک دن دونوں میاں بیوی صبح صبح عدالت جا رہے تھے کہ وی آئی پی موومنٹ کے باعث راستہ بند تھا۔ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں سے جھگڑا ہوا اور دونوں میاں بیوی گرفتار کرلئے گئے دونوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو گیا۔ سب جانتے ہیں کہ ان دونوں کا اصل قصور یہ ہے کہ کبھی ایک بدتمیز شاعر احمد فرہاد کے وکیل بن جاتے ہیں، کبھی بدتمیز صحافی اسد طور کی وکالت کرتے ہیں، کبھی ماہ رنگ بلوچ اور کبھی علی وزیر کو انصاف دلانے عدالت جا پہنچتے ہیں۔ ایمان اور ہادی خوش قسمت ہیں کہ ان کی پہچان مظلوموں کی حمایت ہے ان دونوں سے وہ ظالم نفرت کرتے ہیں جن کو خلق خدا بددعائیں دیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی ایمان غدار اور دہشت گرد کہلاتی ہے اور شہباز شریف کے دور میں بھی دہشت گرد کہلاتی ہے۔ ایمان کو گرفتار کرکے شہباز شریف نے اپنے سینے پر جو تمغہ سجایا ہے وہ تمغہِ بدنامی کہلاتا ہے گرفتاری نے ایمان کو جو تمغہ دیا ہے وہ تمغہِ حق گوئی کہلاتا ہے۔ شاباش ایمان، شاباش ہادی۔