• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی چار سال پہلے کی بات ہے ۔میں اسلام آباد میں پاکستان کی معیشت کے موضوع پرہونے والی ایک اہم میٹنگ میں شریک ہوا اور کالم لکھنے کیلئےنوٹس لیے مگرکالم لکھا نہیں۔ وہ نوٹس آج میری نظر سے گزرے تو مجھے محسوس ہوا کہ اُس وقت جو مسائل بیان کیے گئے تھے اور جو انکے حل پیش کیے گئے تھے ۔وہ موجودہ صورتحال پر سو فیصد پورے اترتے ہیں ۔یعنی پاکستان مسلسل ایک ہی طرح کےحالات کا شکار چلا آرہا ہے اور روز بروز زوال کی طرف جا رہا ہے ۔یہ نہیں کہ اہل اقتدار کو پاکستان کے مسائل کا علم نہیں یا وہ نہیں جانتے کہ ان کا تدارک کیسے ممکن ہے مگرشاید کوئی بھی ان کےحل کی طرف سنجیدہ نہیں پچھلے دو سال سے یوں لگ رہا ہے کہ اس ملک کا بس ایک ہی مسئلہ ہے اور اس مسئلے کا نام پی ٹی آئی ہے ۔

ایک نظر ان نوٹس پر ڈالیے۔باقی باتیں پھر کرتے ہیں۔ ’’سیاسی عدم استحکام کے سبب مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ،معیشت کی بدحالی نے اس ملک کے بند بند کو مضمحل کردیا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبےکمزورتر ہوتے جا رہے ہیں ۔معاشرتی انصاف کے مسائل بھی اہمیت اختیار کررہے ہیں۔ کوشش کے باوجود محصولات میں بہتری نہیں آرہی ۔ابھی ٹیکس کے نظام کو کچھ اور شفاف اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بہتر منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔ قرضوں کی منظم ادائیگی کیلئے مستقبل کی کوئی پیش بندی نہیں ۔بے شک خالی اکائونٹ رکھنے والوں کو بھی فائلرز بنایا جا رہا ہے مگر ٹیکس چوری کا مداوا نہیں ہو پا رہا۔ گلی محلے کی دکانوں کو ٹیکس نیٹ میں شریک نہیں کیا جا سکا۔ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے لوگ تو امیر ہو رہے ہیں ڈیپارٹمنٹ نہیں۔ مؤثر ٹیکس وصولی کیسے ہو گی۔ یقیناً ٹیکس وصولی کے طریقوں کو بہتر بنانا ہو گا اس میں ٹیکنالوجی کا آسان استعمال انتہائی ضروری ہے۔ مختلف آمدنی کی سطح کے مطابق ٹیکس کی شرح کو منصفانہ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ مالی پالیسیوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ جب تک شرح سود کنٹرول نہیں ہوگی نہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی اور نہ ہی مہنگائی میں کمی ہو گی۔ چھوٹے کاروباروں کیلئے قرضوں کی فراہمی کو آسان ترین بنانا ہوگا۔ مخصوص علاقوں میں کاروبار کیلئے مراعات فراہم کرنا ہونگی جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ۔ سرمایہ کاروں کیلئے قانونی پیچیدگیوں کو کم کرنا پڑے گا۔ ان کے تحفظ کیلئے امن و امان کی طرف خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ زرعی ترقی کیلئےجدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ کسانوں کو منڈیوں تک براہ راست رسائی فراہم کر کے ان کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ زرعی پالیسیوں کو نئے سرے سے دیکھنا پڑے گا۔ بیجوں کی درآمد پر پابندیاں ختم کرنا ہونگی۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں باہر سے اچھی قسم کے بیج منگوانے پر باقاعدہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ سنا ہے اس کا سبب کیڑے مارادویات فروخت کرنے والا مافیا ہے۔ کپاس کی فصل کی تباہی کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے۔ سو زرعی ترقی کی پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ صنعتی ترقی کیلئے پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر بجلی اور پٹرول وغیرہ کی موجودہ قیمت پر صنعتی ترقی ممکن ہی نہیں۔

موجودہ مہنگائی نے غریب کو غریب تر کر دیا ہے۔ درمیانہ طبقہ بھی پس کررہ گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں انتہائی ضروری ہے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینا کہ وہاں ملازمتیں پیدا ہوں۔ خاص طور پر خواتین جو اس معاشرہ میں مردوں سے زیادہ ہیں۔ ان کی طرف توجہ دی جائے ۔عورتوں کو معاشی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔

توانائی کےمتبادل ذرائع پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اس کے بغیر مہنگائی میںکمی ممکن نہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے کہ باہر سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آسکیں۔تعلیمی اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور نئے نصاب کی تشکیل کے بغیر تعلیم میں بہتری نہیں آ سکتی۔ خاص طور پر فنی تعلیم کیلئے ایک بڑے سیٹ اپ کی ضرورت ہے جہاں ہر سال لاکھوں بچے فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر کمانےکے قابل ہو سکیں۔ مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینابھی نہایت اہم ہے‘‘۔

یہ تو چار سال پہلے کی کہانی ہے ۔اب کیا صورتحال ہے۔ سیاسی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم معاشی تباہی کی طرف مسلسل رواں دواں ہیں۔ کسی بھی شعبے میں بہتری نہیں آئی۔ صنعتیں بند پڑی ہیں۔ تعلیم کا جلوس نکلا ہوا ہے۔ کسان رو رہے ہیں۔ مزدوروں اوربے روزگاروں کے ہجوم دفتروں اورفیکٹریوں کے دروازوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔غریبوں نے ایک وقت کھانا چھوڑ دیا ہے۔ گھر کی بجلی استعمال کرنا بھول گئے ہیں ۔انصاف گاہیں انصاف دینا بھول گئی ہیں ۔پولیس لوگوں کی حفاظت کرنا چھوڑ گئی ہے۔کسی معاملہ میں بھی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بہتری کی طرف کیسے جائیں گے۔ فلاح کی طرف کیسے پہنچیں گے ۔کیسے ایک ترقی یافتہ قوم بنیں گے۔ یقیناً اس کا واحد راستہ سیاسی استحکام ہے۔ یہی روشنی اور خوشبو کا راستہ ہے۔ یہی صبحوں کی طرف جاتا ہے۔یہی اجالوں کا سفیر ہے۔

تازہ ترین