شعور کے پچاس برس بعد اور اس سال میں جاپان سے لیکر، موزمبیق ، یوروگوئے اور امریکہ جیسے بڑے اور دیگر چھوٹے ملکوں میں الیکشن ہوں اور پیسہ نہ چلے یہ نا ممکن ہے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان میں یہی کا م ’’انڈر دی ٹیبل‘‘ ہوتےہیں اور ہر وقت ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں وصول کرنے والے اور دینے والے ہاتھ، غیبی سمجھے جاتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا میں نئی سائنسی ایجادات نے مصنوعی سماعت کے ذریعہ معاشرے کو جھنجھوڑ دیا ہے کہ مضمون لکھوانا ہو کہ شعر ،ایسا میکنزم بنایا گیا ہے کہ چیٹ جےپی ٹی کے ذریعہ روبوٹ وہ سب کچھ لکھ دے گا جو آپ سوچ رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب میں دخل دینا اس روبوٹ کے لیے مشکل ہو گا، کہ
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرؔ کا یہ شعر توبہر حال اب تک مصنوعی ذہانت سوچ بھی نہیں سکتی۔ البتہ تحقیقی مقالوں اور سرکاری رپورٹوں یا سرکاری اعلامیہ ہو وہ تو مصنوعی ذہانت لکھ دے گی۔ بہرحال تازہ کتابیں پڑھتے ہوئےاور وہ بھی خواتین لکھنے والیوں کے دو مجموعے دیکھ کر مصنوعی ذہانت کے معمے نے میرے ذہن میں چٹکی لی اور صنوبر ناظر کی کتاب کو پڑھتےہوئے بار بار مجھے ’’خیالوں کی آرٹ گیلری‘‘ میں دخل اندازی کرتے روبوٹ نے مجھے چھیڑا کہ اس مجموعے میں تو بارہ مسالے ہیں۔ افسانے، سفرنامے، فلسفیانہ مضمون اور عورت کی زندگی کے ہر مرحلے پر اوپر چڑھتی سیڑھیاں کہ جہاں ہمارے ملک میں لڑکیوں کو بلوغت شروع ہونے سے شادی اور سن یاس تک بھی پڑھی لکھی لڑکیوں کی باقاعدہ تعلیم نہیں ہوتی ہے۔ صنوبر ناظر نے سفر ناموں میں فرانس، اٹلی، برطانیہ میں نوادرات کی تفصیل اس سلیقے اور تاریخی مخرج کے ساتھ بیان کی ہے کہ لطف لے کر پڑھی جا سکتی ہے۔ صنوبرکے کسی واقعہ یا افسانے کی ہیروئن چمکتے زیورات سے لدھی پھندی،بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والی نہیں کہ وہ بندہ جو دبئی اور سعودی ریال کی نمائش میں جوان اور خوبصورت لڑکیوں کو بیاہ کر، سسرال میں چھوڑ کر واپس نوکری پر چلاجاتا ہے۔ ایک سال میں ایک چکر اور ایک بچہ دیکر پھر نوکری پر، یہ ہے ہماری افسانوں کی دنیا، صنوبر نے ہر ملک میں دیکھا ہے کہ عورتوں کے ساتھ زیادتی ، کیسی کیسی بندشیں اور بچوں کےساتھ عمومی مسجد سے لیکر گھروں تک میں باپ سے لیکر بوڑھا صوفی بنا شخص بھی بدعملی سےباز نہیں آتا ہے۔ صنوبر نے اپنی کتاب کو ’’آرٹ گیلری‘‘ کہا ہے۔ دنیا کی ساری مکروہات کو اس کا قلم، بہت متانت سے لکھتا ہے۔ نیم ترقی یافتہ ممالک کی یہ سب بدعتیں، دوسری مکروہات کے علاوہ جرگوں کی شکل میں اور بھی نحوست پھیلا رہی ہیں۔
50 برس کی عمر کو صنوبر کے علاوہ ڈاکٹر رخشندہ پروین بھی پہنچ کر وی لاگ لکھتے لکھتے کتابی شکل میں خود کتھا کو ’’بے وقت کی راگنی‘‘ کہہ رہی ہے۔ اس کے پاس بنگال سے پاکستان آنے کی داستان میں بہت بڑے مسئلے ہیں۔ جہیز نہ ملنے پر طلاق، بیٹیاں پیدا کرنے پر طلاق، وٹے سٹے میں طلاق اور سب سے بڑھ کر غیرت کے نام پر کبھی بیوی قتل، کبھی بہن اور بیٹی قتل ۔اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں ریمنڈڈیوس کیس میں خوں بہا کے نام پر، سب کو رقم دیکھ کر اپنا خون بھول جاتا ہے۔رخشندہ ڈاکٹر اور ایک بڑے ادیب پروفیسر نذیر احمد کی بیٹی ہونے کے ناطے، ادب کا ذائقہ بھی رکھتی ہے۔ بیٹی اور وہ بھی اکلوتی بیٹی جس کے باپ نے کبھی اپنے خون کو آواز نہیں دی۔ اس بیٹی کے اور اس کی سہیلیوں کے بڑے سوال ہوتے تھے۔ گھبرا کے آکے ماں کے سامنے ہر روز نیا سوال نامہ رکھ دیتی ماں نے رخشندہ بیٹی کےسوالوں سے تنگ آکر اُسے اپنی بہن کے پاس آسٹریلیا روانہ کردیا۔ جوان بچی اب ماں سے شکایتیں نہیں کرتی، وہ بھی ابھی یاد کرتی ہے کہ اس کی ماں کے ساتھ معاشرے نے این جی او سیکٹر کی معروف خواتین اور پھر ٹی وی کی سولو صبح کے پروگرام پیش کرنے والی خاتون، رخشندہ کو نئے نوجوان چہروں کو فوقیت دیتے معاشرے اور میڈیا نے کیسے بھلا دیا۔
رخشندہ نے بہاریوں کے مسائل پر فہمیدہ ریاض کی طرح، بہت دکھی انداز میں لکھا ہے۔ حسینہ واجد کے زمانے میں تو بہاریوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا رہا کہ 92سالہ بزرگ کو پاکستان زندہ باد کہنے پر پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ حسینہ واجد کے جانے کےبعد، ماحول میں تبدیلی اس حد تک آئی ہے کہ یوم قائداعظم پہلی دفعہ منایا گیا ہے۔ رخشندہ بار بار ہم سب کو یاد دلاتی ہے کہ وہ جو گزشتہ پچاس برسوں سے خود کو پاکستانی کہنے پر ایک ڈربے میں بند رکھے گئے ہیں۔ کاش حکومت پاکستان ان پر محبت کی نظر کرے۔ مگر سچی بات ہے کہ پاکستان تو لاکھوں افغانیوں کو پناہ دینے کی قیمت معصوم فوجی نوجوانوں اور ملک میں دہشت گردی، ڈاکے اور قتل کی صورت میں گزشتہ چالیس سال سے ادا کر رہا ہے۔
صنوبر اور رخشندہ! تم دونوں کو ادب کی دہلیز پر خوش آمدید۔