جب یہ کالم آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا، امریکی انتخابات میں صرف دو روز باقی ہونگے۔ 5نومبر بروز منگل کو 35کروڑ امریکیوں میں سے تقریباً 18کروڑ شہری ووٹ سے اگلے چار برس کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ میں سے اپنے صدر کا انتخاب کریں گے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ امریکا کا سخت ترین انتخاب ہے کیونکہ دونوں امیدواروں کے درمیان ایک فیصد کے لگ بھگ فرق پایا جاتا ہے۔ کملا ہیرس کو معمولی برتری حاصل ہے لیکن امریکی طرز انتخاب میں یہ برتری کامیابی کی ضمانت نہیں کیونکہ صدر کا انتخاب انفرادی ووٹوں کی گنتی پر نہیں ہوتا بلکہ آبادی کے لحاظ سے ہر ریاست کو الیکٹورل ووٹوں کی ایک خاص تعداد تفویض کی گئی ہے۔ اگر کوئی امیدوار مجموعی ووٹوں میں برتری حاصل کر بھی لے تو محض چند ریاستوں میں کامیابی کی صورت میں مطلوبہ 270انتخابی ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ 2016ء میںہلیری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً تیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل کالج میں شکست کھا گئی تھیں۔ معلوم انسانی تاریخ میں رواں برس سب سے بڑا انتخابی برس قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس برس دنیا بھر میں تین ارب ستر کروڑ ووٹروں نے72 ممالک میں اپنی حکومت چننا ہے۔ ان میں ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک بھارت میں نریندر مودی حکومت بنانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن توقعات کے برعکس انکی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ 28کھرب ڈالر کے معاشی حجم کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقتور ترین فوجی قوت کے حامل ملک امریکہ میں انتخابات کو دنیا کے آئندہ خد و خال بدلنے میں اہم ترین خیال کیا جاتا ہے۔ امریکا بین الاقوامی تعلقات نیز اہم ترین مالیاتی اداروں پر اپنے اثر و رسوخ کے باعث دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
حالیہ امریکی انتخاب پر اس لئے بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سیاست کبھی اس طرح کی دوٹوک قطبیت کا شکار نہیں ہوئی۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2020ء کے انتخابات کا نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے حامیوں کے ذریعے امریکی کانگریس پر چڑھائی کر دی تھی۔ وہ علانیہ طور پر اپنے ملک میں قدامت پسند پالیسیاں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں روس میں ولادی میر پیوٹن، بھارت میں نریندر مودی اور چین میں ژی جن پنگ کی حکومتیں قائم ہیں، امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ امریکا میں عام ووٹر ٹیکس، مہنگائی، تارکین وطن اور اسقاط حمل جیسے مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے لیکن بیرونی دنیا کو ٹرمپ کی پالیسی کے دوسرے پہلوئوں سے چند در چند اندیشے لاحق ہیں۔ ووڈ رو ولسن کے عہد صدارت سے امریکا میں ایک بنیادی سوال یہ رہا ہے کہ امریکا کو عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے یا دنیا سے الگ تھلگ ہو کر داخلی معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ اس سیاسی اختلاف کی جڑیں 1823ء میں امریکا کے پانچویں صدر جیمز منرو کی اس پالیسی تک جاتی ہیں کہ امریکا کے اتحادی ممالک کے خلاف کسی بیرونی قوت کی مداخلت کو براہ راست امریکی مفادات کے منافی سمجھا جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب جیتنے کی صورت میں نیٹو سے مکمل قطع تعلق یا انتہائی کمزور تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر فروری 2022ء سے روس کی یوکرین پر جارحیت کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یوکرین کو روسی مطالبات تسلیم کر لینے چاہئیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معیشت کو ترقی دینے کیلئے تمام غیر ملکی درآمدات پر 20فیصد محصولات نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ چینی درآمدات پر ان کا 200 فیصد تک محصول عائد کرنے کا ارادہ ہے۔ پاکستان کی امریکا کو کل تین ارب ڈالر برآمدات پر ٹیرف کی موجودہ اوسط شرح 2 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ امریکا پاکستان کا واحد تجارتی پارٹنر ہے جس میں پاکستان تجارتی فائدے میں ہے۔ ہمارے ہم وطن فلسطین کی محبت میں کملا ہیرس سے ناخوش ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کیا تھا۔ اگر بائیڈن نے سابق پاکستانی وزیراعظم کو فون نہیں کیا تو ٹرمپ نے بھی جنوری 2018ء میں پاکستان کے خلاف توہین آمیز ٹویٹس کی تھیں۔ نیز اگست 2019ء میں بھارتی حکومت کے کشمیر میں اقدام پر لاتعلقی اختیار کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ موسمی تبدیلیوں کے بارے میں پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے عالمی موسمیاتی بحران میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت دنیا میں بیک وقت متعدد نئی عالمی قوتیں ابھر رہی ہیں۔ پاکستان کو برکس کی رکنیت نہیں مل سکی۔ خارجہ محاذ پر پاکستان گہری مشکلات کا شکار ہے اور ہمارے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی سفارتی صلاحیت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس پس منظر میں ڈونلڈ ٹرمپ تائیوان کے دفاع کی ضمانت دینے پر تیار نہیں ہیں۔ گویا سوا دو کروڑ کی آبادی اور بتیس ہزار ڈالر فی کس آمدنی رکھنے والا خوشحالی کا یہ 13000 مربع میل جزیرہ چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں تقریباً پچاس ہزار وفاقی اہلکاروں کو آئین کی بجائے براہ راست صدر کے تابع کر کے امریکا کا انتظامی ڈھانچہ ہی بدل دینا چاہتے ہیں۔ امریکا کا انتخاب صرف اس ملک کی داخلی یکجہتی اور معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہو گا، کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ میں مقابلے کا نتیجہ دنیا بھر میں جمہوریت کے امکانات پر اثر انداز ہو گا۔ حالیہ انتخابات کا بنیادی نکتہ امریکی جمہوریت کی ساکھ ہے۔ ٹرمپ کے حامی اپنی ممکنہ شکست پر ہنگامہ آرائی کی تیاری کر چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے مٹھی بھر ترقی پسندوں کے دل کملا ہیرس کو بورژوا جمہوریت کا نشان سمجھتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ ہمارے مذہب پسند ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں روشن خیال جمہوریت کی ناکامی کا خواب دیکھ رہے ہیں اور تحریک انصاف کے نودمیدہ انقلابیوں نے ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔