ریٹائرڈ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لندن میں کچھ بدقماشوں نے حملہ آور ہوتے ہوئے بد زبانی کی ہے، تمام زندہ ضمیر انسانی برادری اسکی مذمت کرتی ہے، قاضی فائز عیسیٰ درویش کے پسندیدہ ترین ججز میں نمایاں تر ہیں جو جج سے زیادہ دانشور ہیں کیونکہ جج بننے سے قبل کوئٹہ میں قانونی پریکٹس کے دوران آپ انگلش اخبارات میں آئین و قانون پر زبردست آرٹیکلز لکھتے رہے ہیں، آپ 13ماہ چیف جسٹس پاکستان رہنے کے بعد 25اکتوبر کو ریٹائر ہوئے۔26اکتوبر1959کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے فائز عیسیٰ بلوچستان کی باوقار فیملی کے چشم و چراغ ہیں آپ کے دادا قاضی جلال الدین بلوچستان کی طاقتور ریاست قلات کے پرائم منسٹر رہےجبکہ آپ کے والد محترم قاضی عیسیٰ بلوچستان مسلم لیگ کے پہلے صدر بنائے گئے، جنہوں نے اس خطے کی پاکستان میں شمولیت کیلئے بھرپور خدمات سر انجام دیں۔ قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے واحد جج ہیں جن کی جوڈیشری میں تقرری براہ راست چیف جسٹس کی حیثیت سے ہوئی، یہ 2009ءکی بات ہے اور اپنی اس حیثیت میں انہوں نے ساتھی ججز سے منفرد اسلوب میں اپنی غیر روایتی سوچ اور غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پانچ دسمبر 2014کو انہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا آٹھ اگست 2016کو کوئٹہ میں خوفناک خود کش حملہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں چلی گئیں، قاضی صاحب کو اس سلسلے میں تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنایا گیا، اپنی اس حیثیت سے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے دو ٹوک اور واضح سفارشات پیش کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ کالعدم جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو لگام دینے کیلئے ٹھوس تجاویز دیں بلکہ سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا ،2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے فوجی عدالتوں کی حمایت شروع کی تو قاضی صاحب نے اس کی مخالفت میں واضح موقف اختیار کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے کیریئر کا زبردست اقدام ان کا وہ تاریخ ساز فیصلہ تھا جو 2017میں انہوں نے نہ صرف دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف بلکہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے منفی رول کی بیخ کنی کیلئے صادر فرمایا اور اس وجہ سے وہ طاقتوروں کے معتوب ٹھہرے۔ 2017میں تحریک لبیک نے فیض آباد انٹرچینج پر طویل دھرنا دیا اور پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ انتخابی حلف نامے میں ترمیم کرتے ہوئے ختم نبوت کی شق کو نکال دیا گیا ہے، اس الزام پر تب کے وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا اور بشمول نواز شریف لیگی سیاستدانوں پر جوتے پھینکے گئے، تب جسٹس فائزعیسیٰ نے سروسز چیفس کو ڈیفنس منسٹری کے تحت حکم دیا کہ وہ اپنے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا شدت پسند گروہ کی حمایت کی۔ بہر کیف مذکورہ بالا احکامات کی پاداش میں قاضی صاحب کے خلاف نہ صرف یہ کہ پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا گیا بلکہ مابعد وہ وقت بھی آیا جب انہیں جوڈیشری سے نکال باہر کرنے کیلئے جعلی ریفرنس بھیجا گیا۔ خود قاضی فائز عیسیٰ کے بقول اس وقت کے چیف آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کی عمارت کے لان میں ٹہلتے ہوئےانہیں راز داری سے ریفرنس کے متعلق بتایا جس کا مقصد مجھ سے استعفا لینا تھا پھر جب قاضی صاحب نے اسٹینڈ لیا تو سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا مگر قاضی صاحب نے اس ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور اپنی بیگم سرینا قاضی کے ساتھ کٹہرے میں کھڑے ہو کر دلائل کیساتھ اپنے خلاف بنائے گئے مقدمے کو جعلی ثابت کیا یہاں تک کہ ریفرنس بنوانے والوں کو بھی بعد ازاں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ یہ ان کی غلطی تھی۔ 2018میں سوموٹو یا از خود نوٹس کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ یہ اختیار چیف جج کا نہیں سپریم کورٹ کا ہے۔ عمر عطا بندیال نے پارلیمنٹ کے بالمقابل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر جو رویہ اختیار کیا قاضی صاحب نے اس کی بھی مخالفت کی جس کی پاداش میں بندیال نے انہیں تمام بینچز سے الگ کر دیا۔ پارلیمان نے آئین کی 50سالہ تقریب میں شرکت کی دعوت دی تو وہ اس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اپنا سچا و کھرا مؤقف واضح کیا، مبارک ثانی کیس کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قاضی فائزنے کمزوری دکھائی لیکن پاکستان کے مخصوص مذہبی پس منظر میں جائزہ لیا جائے تو اس کا الزام قاضی صاحب پر نہیں بلکہ اس ملک کے اصل وارثوں پر عائد ہوتا ہے، جمہوریت اور پورے سسٹم کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ خوفزدہ کر دینے والے جتھے سپریم جوڈیشری کا گھیراؤ کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی ابتر صورتحال پیدا ہی کیوں ہونے دی گئی؟ سپریم جوڈیشری کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائےا لٹا یہ کہا جا رہا تھا کہ ہاں آپ بھی زور آوروں کی ہاں میں ہاں ملائیں ایسے میں قاضی فائزعیسیٰ کی بجائے قاضی شریح بھی ہوتے تو وہ کیا کر سکتے تھے؟ عہدے کی یہ ایکسٹینشن جس کیلئے ملازم لوگ مرے جا رہے ہوتے ہیں قاضی صاحب کو بارہا اس کی پیشکش کی گئی مگر اس مرد درویش نے پارلیمنٹ کی بالادستی اور کھوکھلی سنیارٹی کی بجائے میرٹ کو ترجیح دیتے ہوئے باوقار ریٹائرمنٹ کا رستہ اختیار کیا، جاتے جاتے سب پر واضح کر دیا کہپون صدی کی تاریخ میں پہلا سرکاری ملازم ہے جس نے پروٹوکول نہیں لیا، جس نے بلٹ پروف گاڑی وغیرہ نہیں لی، جس نے پلاٹ لینے سے انکار کردیا، جس نے قوم کے پیسے پر 20لاکھ کا عشائیہ لینے سے انکار کیا، پہلا سرکاری ملازم و جج ہے جس نے عملاً ٹی وی پر لائیو کیس چلوا کر انصاف کیا، غرض یہ کہ آپ کو پاکستان کے سارے کرپٹ سرکاری ملازم اور دیگر غنڈے قاضی عیسیٰ کی مخالف کرتے، ان پر کیچڑ اچھالتے اور حملہ آور ہوتے نظر آئیں گےکیونکہ قاضی فائز عیسیٰ ان کے برعکس کسی دوسری ہی دنیا کا انسان ہے، اسلئے پوری قوم اور با ضمیر انسانی برادری قاضی عیسیٰ کو سلام پیش کرتی ہے۔