• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات اتنی پرانی نہیں جب چند سال قبل اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے لاس اینجلس میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹرکے پاس سرنگ کی کھدائی کا آغاز کیا تھا۔ یہ تعمیرات جیسی سست رو صنعت کے لیے ایک حیران کن پیش رفت تھی۔ 

کمپنی کے بانی اور سی ای او ایلن مسک کا شمار امریکا کے بہترین سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے، جن کی نظر یں ہمیشہ مستقبل او ر مستقبل کے رجحانات پر رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی تعمیراتی کمپنیوں کے مقابلے میں وہ اپنے منصوبوں کے لیے مارکیٹ سے بہترین اور باصلاحیت افراد کو ساتھ ملانے کی بہتر پوزیشن میں رہتے ہیں۔

یہ صرف ایک مثال ہے کہ اختراعی اور تغیراتی سوچ رکھنےوالے باصلاحیت افراد، کس طرح تعمیراتی صنعت کو نئی جہتوں سے متعارف کرارہے ہیں، جن کی روایتی تعمیراتی کمپنیوں سے توقع نہیں رکھی جاتی۔ 

یہ ایلن مسک اور ان جیسے باصلاحیت اور جدت پسند لوگوں کی اختراعی سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج تھری ڈی پرنٹڈ عمارات، خود کار ڈیزائن کردہ ہسپتال اورپری فیبریکیٹڈ بلند و بالا ٹاورز کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے، جنھیں آج سے چند برس پہلے مستقبل کی ٹیکنالوجی سمجھا جاتا تھا۔

عالمی اقتصادی فورم اور بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دیگر صنعتوں کے مقابلے میں، گزشتہ پچاس سال کے دوران تعمیراتی صنعت کی پیداواری صلاحیت ایک ہی سطح پر ساکن رہی ہے۔

تعمیراتی صنعت میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا اور کمپنیاں، تعمیرات کے روایتی طریقے چھوڑ کر جدت اپنانے کو تیار نہیں تھیں۔ البتہ، حالیہ چند برسوں کے دوران تعمیراتی صنعت نے جدید ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا شروع کردیا ہے، جس کے بعد اس صنعت میں کام کرنے کا طریقۂ کار بدل کر رہ گیا ہے۔

’شیپنگ دا فیوچر آف کنسٹرکشن‘ نامی رپورٹ میں 10ایسے تعمیراتی منصوبوں کا ذکر کیا گیا تھا، جو جدید ٹیکنالوجی کے باعث ہی پایہ تکمیل کو پہنچے۔ دبئی کا برج الخلیفہ (دنیا کی بلندترین عمارت) اور ایمسٹرڈیم کی ’اَیج‘بلڈنگ (دنیا کی سب سے پائیدار عمارت)، تعمیراتی صنعت میں آنے والی جدت اور تغیر کی بہترین مثالیں ہیں۔ 

رپورٹ میں ’وِنسن‘نامی چینی کمپنی کا ذکر بھی کیا گیا تھا، جو گھروں کو تھری ڈی پرنٹ کرتی ہے۔ شکاگو میں کام کرنے والی ’اَپ ٹیک‘نامی کمپنی بھی اس رپورٹ میں زیرِ بحث آئی، جو تعمیرات میں Predictive Analytics ٹیکنالوجی کو استعمال میں لارہی ہے۔

تعمیراتی صنعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مجموعی طور پر معاشرے کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ تاہم عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور دیہی آبادی کی شہروں کی طرف ہجرت جیسے رجحانات کے پیشِ نظر تعمیراتی صنعت کو، ان جدید ٹیکنالوجیز کو جلد از جلد اور وسیع پیمانے پر اپنانا ہوگا۔

توقع کی جارہی ہے کہ تعمیراتی صنعت، شہروں کی طرف منتقل ہونے والی ناخواندہ افرادی قوت کو نچلی سطح تک روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور سستی رہائش گاہیں فراہم کرنے کے حوالے سے آنے والے وقت میں ایک لمبے عرصے تک عوامی بحث کا موضوع رہے گی۔ اور اگر عالمی سطح پر عوام کو مہنگائی میں اضافے یا آمدنی میں مزید کمی کا سامنا کرنا پڑا تو تعمیراتی لاگت پر مزید کھل کر نہ صرف بحث ہوگی بلکہ یہ تنقید کی زد میں بھی آئے گی۔ ایسے میں معمولی تبدیلی کارگر نہیں رہےگی، تاہم ٹیکنالوجی کی بدولت، تعمیراتی صنعت میں معاشی اور ماحولیاتی طور پر بڑی تبدیلی لائی جاسکے گی۔

تعمیراتی صنعت میں نئی ٹیکنالوجیز کو تیزی سے اپنایاجارہا ہے جوکہ ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم تعمیراتی کمپنیوں کو نئی ٹیکنالوجیز کو محدود پیمانے پر استعمال میں لانے کے بجائے، اسے بڑے پیمانے پر تعمیراتی صنعت کے ہر شعبے میں استعمال میں لاناہوگا۔ 

تعمیراتی صنعت کا مستقبل آچکا ہے، اختراعی کمپنیاں ’ہاں یہ ممکن ہے‘ کا نہ صرف پرچار کررہی ہیں، بلکہ اس پر عمل کرکے بھی دِکھارہی ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا روایتی تعمیراتی صنعت پر کیا اثر مرتب ہوگا؟ رپورٹ کے مطابق، ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی اس دوڑ میں جدت کو اپنانے والوں اور انتظار کرنے والوں کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ تعمیراتی کمپنیاں، کس طرح اختراعی منصوبے پیش کرکے اور انھیں عملی شکل دے کر مارکیٹ میں کامیابی حاصل کرسکتی ہیں؟اس حوالے سے درج ذیل امور پر کام کیا جانا چاہیے۔

٭ تعمیراتی کمپنیوں کو’اختراع دوست‘ ماحول کو فروغ دینا چاہیے، جہاں نئی سوچ رکھنے والے سول انجینئرز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

٭انفرادی سطح پر ایک منصوبے کی سوچ رکھنے کے بجائے مجموعی اور طویل مدتی نقطۂ نظر کے تحت کام کیا جائے۔

٭ انضباطی ماحول کو جدید ضروریات کے مطابق ڈھالنے پر کام کیا جائے۔

ٹیکنالوجی اپنانے میں تاخیری راستہ اختیار کرنے سے تعمیراتی کمپنیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آج اگر تعمیراتی کمپنیوں نے جدید ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا شروع کیا تو لاگت اور تکمیل کے دورانیہ میں کمی کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر منفی اثرات میں کمی جیسے فوائد سے وہ کل کے بجائے آج ہی مستفید ہوسکیں گی۔

اس میں حکومتوں کا کردار بھی اہم ہوگا۔ حکومتوں کو، نئی ٹیکنالوجی اختیار کرنے والے انضباطی اداروں، اسٹریٹجک سرمایہ کاروں اور پروجیکٹ مالکان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو بلڈنگ کوڈ جدید بنانے، کارکردگی کی بنیاد پر معیارات مقرر کرنے اور خریداری کے زیادہ لچکدار اور آسان طریقۂ کار مرتب کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے، تاکہ تعمیراتی صنعت میں نئی ٹیکنالوجیز کے متعارف ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکے۔