’’لیویز‘‘کوفورس کہنا،کسی بھی فورس کی توہین ہے کہ یہ مقامی سرداروں کے نام زد کردہ افراد ہوتے تھے، جن میں سے کچھ ڈپٹی کمشنر کے گھر کام کرتے اور زیادہ تر سرداروں کے نوکر چاکرہوتے۔ جنہیں گھر بیٹھے تن خواہ مل جاتی تھی اور اُن کی تن خواہ یا وظیفے میں سے بھی زیادہ حصّہ سردار اور افسر کھا جاتے۔
پھر مرکزسے ملنے والے ترقیاتی فنڈز کی بھی اِسی طرح بندر بانٹ ہوتی رہی ہے، وگرنہ بلوچستان آج اس قدر پس ماندہ ہرگزنہ ہوتا۔ عوام تو بی ایریا کاخاتمہ چاہتےہیں، مگرسرداروں، افسروں کے مالی مفادات اِسی بی ایریا ہی کے فرسودہ اور بےہودہ نظام سے جُڑے ہوئے ہیں سو، وہ اِسے ختم نہیں ہونے دیتے۔
محدود ایریا ہونے کے باعث مَیں پیٹرولنگ کے دوران شہر کے کئی چکر لگا لیا کرتا تھا اور علاقے کے گلی کوچُے تک اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ ایک روز مجھے ’’خفیہ ذرائع‘‘ سے اطلاع ملی کہ ڈسٹرکٹ کائونسل کے چیئرمین نے سرکاری ریسٹ ہاؤس کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا اڈّا بنا لیا ہے، چناں چہ رات کو مَیں نے ریڈ کی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں مصروف چیئرمین کو گرفتار کر لیا، ہر طرف ایک شور مچ گیا۔ ایس پی صاحب کا فون آیا کہ ’’چیئرمین صاحب معزز آدمی ہیں اور گورنر صاحب کے بھی قریب ہیں۔ اِنہیں گرفتار کرنا مناسب نہیں، اِنہیں فوراً چھوڑ دیں۔‘‘
مَیں نے کہا۔ ’’سر! ہم عام آدمیوں کو روزانہ اِسی جرم میں گرفتارکرتے ہیں اوراب یہی جرم کرتے ایک بااثر شخص پکڑا گیا ہے، تو اُسے چھوڑ دیں، میرا ضمیر اِس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ ایس پی صاحب تجربہ کار تھے، جذبات میں آئے بغیر کہنے لگے۔ ’’خیر ہے، اس کی اجازت آپ کا ضمیر نہیں، میرا ضمیر دے رہا ہے۔‘‘ مَیں نے ملزم کو تھانے بھیج کر ڈی آئی جی صاحب سے بات کی، تو انہوں نے کہا۔ ’’آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب آپ کو ایس پی سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ تو یوں پولیسنگ اورانتظامی امورکی’’عملی حقیقتوں‘‘ یا مجبوریوں کا تلخ تجربہ بھی ہونے لگا۔ اور تجربے کا واقعی کوئی نعم البدل نہیں۔
مُلک کے دوسرے شہروں کی طرح سِبّی کے نوجوان بھی منشیات جیسی لعنت کا شکار ہو رہے تھے، مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ نئی نسل کو موت کی دلدل میں دھکیلنے والے گلیوں، محلّوں میں منشیات کی پڑُیاں اور گولیاں بیچتے ہیں اور وہ یہ مال اِس دھندے کے گرو، کالو سے لیتے ہیں، جو شہر کا سب سے بڑا منشیات فروش ہے، لیکن پکڑا اس لیے نہیں جاتا کہ نوجوانوں کو تو ہیروئن، مگر پولیس کورشوت دیتا ہے۔ ایک دوبار مَیں نے ماہانہ کرائم میٹنگ میں ایس پی صاحب سے اُس کا ذکرکیا، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
شہر میں منشیات فروشی کا دھندا چلتا رہا۔ خیر، مَیں نے اپنے اردلی کے ذریعے کالوکی ریکی کروائی اوراُسے عین اُس وقت جا پکڑا، جب وہ گاہکوں کو ہیروئن فروخت کررہا تھا۔ اُس کی دکان سے کافی مقدار میں منشیات برآمد ہوئی۔ مَیں، بدنام منشیات فروش کو ہتھکڑیاں لگاکرایس پی صاحب کے دفترداخل ہوا، تو وہاں دیگر پولیس افسران بھی بیٹھے تھے۔ مَیں نے سیلیوٹ کیا اور کہا کہ ’’سر! یہ رہا کالو، جسے پولیس پکڑنےسےکتراتی ہے۔‘‘ تمام افسروں کو سانپ سونگھ گیا، توایس پی صاحب نے سب کو خُوب لعن طعن کی۔
اگلے روز مَیں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، بریگیڈیئر ظفر حیات سے (جن سے ہم آئی ایس ایس بی کوہاٹ میں مل چُکے تھے) جا کر ملا۔ بریگیڈیئر صاحب کو مَیں نے کوہاٹ کا دورہ یاد کروایا، تو بڑے تپاک سے ملے۔ وہ بھی شام کو اُسی کلب میں ٹینس کھیلنے آتے تھے، جہاں میں کھیلتا تھا۔ مَیں نے کالو کے جرائم کی فہرست پیش کی، توکہنے لگے۔"I know you and I trust you. Don't worry he will be fixed" (مَیں تمہیں جانتا ہوں اور مجھےتم پر اعتماد ہے۔
فکر نہ کرو، اس کا موثرعلاج کیا جائے گا) پھر چند روز بعد اُس کا ٹرائل ہوگیا اور ٹھیک ایک ماہ بعد ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں سِبّی کے ہزاروں لوگوں نے علاقے کے سب سے بڑے منشیات فروش کو کوڑے لگتے دیکھے، جس کے بعد کئی سال تک سِبّی میں منشیات کی خرید و فروخت بند ہوگئی۔ مَیں، سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو جسمانی سزا دینے کے خلاف نہیں کہ اِس طرح دوسروں کوعبرت ہوتی ہے، مگر جنرل ضیاء کےدَورمیں سیاسی ورکرز اور صحافیوں کو کوڑے مارنا انتہائی بہیمانہ اور قابلِ مذمت فعل تھا۔
1985ء میں سبّی ڈویژن کے ضلع نصیرآباد میں ایک قابل اور نیک نام پی ایس پی افسر، پرویز رحیم راجپوت ایس پی تھے۔ ویسے بھی وہاں بی ایریا والا ڈراما نہیں تھا، پورے ضلعےمیں ایک قانون،ایک نظام تھا۔ میری درخواست پر ڈی آئی جی صاحب نے مجھے ایک ماہ کےلیے وہاں بھیج دیا۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر کا نام جھٹ پٹ تھا، جہاں میرے گورنمنٹ کالج، لاہور کے کلاس فیلو بابر یعقوب (جو بعد میں بلوچستان کے چیف سیکریٹری بنے) اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ اُنہیں میری آمد کا پتاچلا تومجھے فون کیا۔ ’’مَیں ایک ماہ کے کورس پر جارہا ہوں۔
سرکاری گھر خالی ہے، یہیں آکررہو۔‘‘ لہٰذا میں ایک مہینہ اُنہی کے گھر رہا۔ مٹی کی چَوڑی دیواروں والا گھر تھا، مَیں رات کو چھت پر سوتا تھا، جہاں مدھ بھری ٹھنڈی ہوا فوراً ہی اپنی آغوش میں لےلیتی۔ جھٹ پٹ میں میرے قیام کےدوران وزیرآبادسے کسی دوست نے مجھ سےبات کرنے کے لیے ایکسچینج کے ذریعے کال بُک کرائی (اُس وقت نہ موبائل فون کی عیاشی تھی اور نہ ہی اُس دُور افتادہ قصبے میں ڈائریکٹ فون کی سہولت حاصل تھی) آپریٹر نے پوچھا۔ ’’آپ کو کہاں بات کرنی ہے؟‘‘ دوست نےجواب دیا۔ ’’جھٹ پٹ بات کرنی ہے…‘‘ آپریٹر بار بار کہتا رہا۔ ’’فکر نہ کریں، جھٹ پٹ (یعنی جلدی) ہی ملادوں گا، مگر جگہ تو بتائیں، کس جگہ فون ملانا ہے؟‘‘ آپریٹر اور میرے دوست کے درمیان، جگہ پر یہ مذاکرات کافی دیرچلتےرہے، جو بالآخر بےنتیجہ ہی ختم ہوئے۔
نصیرآباد میں کئی بار ڈاکوؤں کے خلاف ریڈ کا موقع ملا اوربارہا مجرموں سے مڈھ بھِیڑ ہوئی، جس میں کئی خطرناک مجرم مارے بھی گئے اور کئی دفعہ پولیس ملازمین بھی شہید یا زخمی ہوئے۔ عملی پولیسنگ سیکھنے کا بڑا اچھا موقع ملا۔ مَیں نے ٹریننگ میں ڈوب کر دل چسپی لی، اس دوران دوعیدیں آئیں۔ ایک پرچُھٹی کی، مگر دوسری پروہیں رہا۔ ڈی آئی جی صاحب کے سامنے قبائلی بلوچستان کا مشاہدہ اور دُور دراز تھانوں کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو مجھے ضلعے کے تمام تھانوں کی انسپکشن کے لیے بھیج دیا گیا۔
کئی تھانے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے بیس سے چوبیس گھنٹے کی مسافت پرتھے۔ مَیں ڈرائیوراورایک گن مین لےکرسِبّی سےنکل کھڑا ہوا۔سندھ اورپنجاب کی حدود سےگزرکرکشمور کے راستے شام کو سوئی پہنچا (جس کے سبب قدرتی گیس، سوئی گیس کہلاتی ہے)۔ رات کو گیس کمپنی کے خُوب صورت ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور اگلے روز تھانے کے معائنے کےلیے گیا، تو معلوم ہوا کہ سال بھرمیں معمولی نوعیت کےکُل پانچ مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ لوگ مقدّمہ یا درخواست لےکرتھانے نہیں آتے بلکہ نواب صاحب (نواب اکبر بگٹی) کے پاس جاتے ہیں۔
سال میں ایک یا دو باربڑے نواب صاحب یااُن کا بیٹا سلیم بگٹی آتےہیں اور ریسٹ ہاؤس کےلان میں عدالت لگ جاتی ہے اور پھر وہیں فوری طور پر کیسز کے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔ اگلے روز ہم سوئی سے کچّے رستے کے ذریعے (اب پختہ سڑک بن چُکی ہے) ڈیرہ بگٹی کے لیے روانہ ہوئے۔ اُسی ایریے میں گیس کی وہ پائپ لائنز ہیں، جنہیں اکثر شَرپسند نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد دُور سےایک خُوب صورت عمارت نظرآئی۔ ڈرائیور نے بتایا۔ ’’ڈیرہ بگٹی آگیا ہے اور یہ ڈگری کالج کی نئی عمارت ہے۔‘‘ میرے کہنے پر ڈرائیور نے گاڑی کالج کی طرف موڑ دی۔
چوکیدار گیٹ کے قریب بکریاں چراتا ہوا مِل گیا۔ مَیں نےکہا۔’’پرنسپل صاحب سےملنا ہے۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’وہ توکوئٹہ میں رہتے ہیں۔‘‘ ’’کوئی اور ٹیچرتو ہوگا؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ بولا۔ ’’سب اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’مَیں طلباء سے ملنا چاہوں گا۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’یہاں کوئی طالبِ علم نہیں ہے۔‘‘ ’’تو یہاں کیا ہے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ کہنے لگا۔ ’’اِس عمارت کے کلاس رومز میں نواب صاحب کا غلّہ ذخیرہ ہوتا ہے اور ٹیچرز کی تن خواہیں اُن کےگھرپہنچ جاتی ہیں۔‘‘ شہر پہنچ کرمَیں نےڈرائیور سے کہا۔ ’’سب سے پہلے ڈیرہ بگٹی کا پوراچکر لگاؤ۔‘‘ شہر کیا تھا، سرکاری دفاتر اور فوجی تنصیبات کے علاوہ نواب اکبر بگٹی کی وسیع و عریض حویلی تھی، جس میں سیکڑوں کی تعداد میں اُن کےذاتی ملازمین اور محافظوں کے کوارٹر تھے۔
شام کو کھانے پر اے سی کیپٹن جمیل نےعلاقے سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ ڈیرہ بگٹی ہی میں کسی نےبتایا کہ ایک بارایک بڑے نواب صاحب اپنی نئی رائفل چیک کرنے کے لیے حویلی کی چھت پر بیٹھے تھے، تواُنہوں نے اس کام کے لیے سب سے پہلے نظر آنے والے راہ گیر کا انتخاب کیا اوراُس کےسر کو ٹارگٹ بننے کا اعزاز بخشا، جب کہ مقتول کے ورثاء خاموش رہنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
صبح ریسٹ ہاؤس کے ملازموں سے مَیں پوچھتا رہا کہ ’’آپ اپنے بچّوں کو پڑھائیں گے یا نواب صاحب کا غلام ہی بنائیں گے؟‘‘ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والےدونوں ملازموں نے کہا۔ ’’ہم بچّوں کو تعلیم دلوائیں گے اور چاہیں گے کہ اُنہیں اچھی ملازمت مل جائے۔‘‘ بلوچستان کےدو بڑےاوربااثر قبیلوں یعنی مَری اور بگٹی میں سےبگٹی زیادہ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہیں۔
عموماً قبیلے کے نوجوانوں کواُن کے نوابوں، سرداروں نے تعلیم سےدُوررکھا ہوا ہے تاکہ وہ سدا اُن کےغلام ہی رہیں، حالاں کہ سچ یہ ہےکہ آج کےدَورمیں یہ سردارانہ نظام انسانوں کےاستحصال اورحقوق کی پامالی کی بدترین شکل ہے۔ بھٹو صاحب نے ایک بار اس نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر وہ بھی مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔ چوں کہ ہمارے ڈونرز کو اِس استحصالی نظام سے کوئی گلہ نہیں، لہٰذا اُن کے مال پر پلنے والی این جی اوزنے بھی اِس ظالمانہ نظام کے خلاف کبھی آواز نہیں اُٹھائی۔
ڈیرہ بگٹی کے پولیس اسٹیشن میں مقدمات کی تعداد کُل چارتھی اوروہ بھی ٹریفک حادثات سے متعلق تھے۔عام بگٹیوں کےنزدیک تھانہ، عدالت، قانون سب کچھ نواب صاحب ہی تھے۔ ڈیرہ بگٹی کے بعد میری اگلی منزل بلوچوں میں سب سے جنگجو یعنی مَری قبیلے کے سردار نواب خیربخش مَری کا(جو بُھٹّو دَور کے ملٹری آپریشن کےدوران افغانستان چلےگئے تھے) آبائی گاؤں، کاہان تھا۔ ڈیرہ بگٹی سے قریباً پچھتّر کلومیٹر کا کچا رستہ تھا، جو تمام مَری قبیلے کی بستیوں سے گزرتا تھا۔
میرے ساتھ صرف ایک گن مین تھا۔ خیر، ہم ﷲ کا نام لےکر چل پڑے اور ڈھائی تین گھنٹے میں پہنچ گئے۔ تھانے کے معائنے اور پولیس ملازمین سے ملاقات کے علاوہ کاہان جانے کا مقصد نواب خیر بخش مَری کے بھائی، نواب قیصر خان سے ملاقات بھی تھا۔ وہ اس لیے کہ چند ہفتےپہلے قیصرخان مری کے بیٹے نے بَھرے بازار میں ایک شخص کوقتل کردیا تھا۔ وجۂ قتل یہ تھی کہ نواب کا بیٹا کسی کے عشق میں مبتلا ہوگیا تھا اور اب اُس ’’معشوق‘‘ پرکسی اور کی بھی نظر تھی۔
رقیبِ رُوسیاہ کو باز رہنےکو کہا گیا۔ مگروہ کیا ہے کہ ؎ عشق پر زورنہیں ہے، یہ وہ آتش غالبؔ… کہ لگائے نہ لگےاوربجھائےنہ بنے۔ سو، طاقت وَر نے اُسے دنیا ہی سے اُٹھا دیا۔ اب قاتل خود تو پیش ہونے سے رہا اور پولیس کی اتنی جرأت نہیں تھی کہ اُسے جا کر گرفتار کرلے، جب کہ علاقے میں ہر طرف مسلّح مَری پِھررہے ہوتے تھے، لہٰذا ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ قاتل کےوالد کو(جو حکومت سے الاؤنس اور وظیفہ بھی لے رہا تھا) قائل کیا جائے کہ وہ لڑکے کو قانون کے حوالےکردے۔
سو، قیصر خان کو قائل کرنے کا فریضہ مجھے سونپا گیا۔ کاہان پہنچ کر مجھے بتایا گیا کہ پولیس کےلیے باہرگشت کرنا ممکن نہیں کہ اِس طرح پولیس پر حملے کا خطرہ ہے، لہٰذا پولیس صرف تھانے کی سیکیوریٹی ہی پرمامور ہے۔ قیصر خان سے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک چھوٹے سے ریسٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ اصل بلوچ ہونے کے سبب وہ صاف گو آدمی تھا۔
ملٹری آپریشن کی بات چِھڑی، تو کہنےلگا۔ ’’اس آپریشن سے ہماری کمر ٹوٹ گئی تھی۔ اگر بھٹو یہ آپریشن تھوڑی دیر اور جاری رکھتا، تو ہم سرنڈرکر جاتے۔ آپریشن معطّل ہوا تو ہماری جان بچ گئی۔‘‘ مَیں نے اصل ایشو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ’’نواب صاحب! آپ کے حکومت کے ساتھ اچھے مراسم ہیں، حکومت بھی آپ کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کرتی ہے،تو آپ تعاون کے اسی جذبے کے تحت اپنے بیٹےکو پیش کردیں۔‘‘ نواب کہنے لگا۔ ’’یہ میرے لیے ممکن نہیں۔‘‘ مَیں نےپوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ توبولا۔’’اگر مَیں ایک بیٹے کو گرفتار کرواؤں گا، تو دوسرے بیٹے مجھے قتل کردیں گے۔‘‘
گرفتاری کے معاملے پرتو مذاکرات کام یاب نہ ہوئے، مگر مختلف موضوعات پر خوش گوار ماحول میں کُھل کر بات چیت ہوتی رہی۔ مَیں نے کہا۔ ’’آج کے جدید دَور میں یہ سردارانہ نظام کب تک چلے گا؟‘‘ کہنےلگا۔ ’’یہ اس لیے چلےگا کہ یہ اپنے لوگوں کو تحفّظ اورفوری انصاف دیتا ہے۔ آپ کے عدالتی نظام میں لوگ تھانوں اورعدالتوں کے باہر کئی کئی سال تک ذلیل وخوار ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے یہاں چند گھنٹوں یا چند دنوں میں فیصلہ ہوجاتا ہے۔ Exceptions آپ کے سسٹم میں بھی ہیں اور ہمارے ہاں بھی ہیں، مگر مجموعی طور پر انصاف کےمطابق فیصلہ ہوتاہے اور لوگ مطمئن ہیں۔‘‘ اُس وقت تو مَیں نے اتفاق نہ کیا، مگر آج سوچتا ہوں کہ ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں اتنی کم زوریاں اور قباحتیں ہیں کہ یہ عوام کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ جو سسٹم ڈیلیور ہی نہیں کررہا، وہ بھلا قبائلی باشندوں کے لیے کیسے پُرکشش ہوگا؟
وہاں سے واپسی پر چوں کہ سندھ سے ہو کر آنا تھا، اس لیے مَیں نے سوچا کہ راستے میں کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملتا جاؤں۔ سوئی کے ساتھ کشمور کی سب ڈویژن کندھ کوٹ میں میرے جی۔ سی کےکلاس فیلو خورشید عالم بخاری تعیّنات تھے، اُن سےملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ شکارپور گیا، جہاں ایک اور کلاس فیلو خان بیگ نے(جو بعد میں آئی جی پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے) ڈنر پر بلایا تھا۔ وہاں کھانا کھا کر، مَیں رات ہی کولاڑکانہ کی سب ڈویژن رتو ڈیرو کے لیے چل پڑا (یہ اُن دِنوں کی بات ہے، جب سندھ میں ڈاکو راج تھا) جب کہ میرے ساتھ صرف ایک گن مین تھا۔
بہرحال، ہم بخیریت رتو ڈیرو پہنچ گئے، جہاں ہمارے لاء کالج کے دوست سیرت اصغر جوڑا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ انہوں نے مجھے زرداری صاحب کی ایک شوگر مل کے ریسٹ ہائوس میں ٹھہرایا۔ صبح سیرت جوڑا صاحب کی قیادت میں ہم گڑھی خدا بخش گئے، جہاں سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے بیٹے شاہنواز کی قبروں پر دعائے فاتحہ پڑھی اور واپس روانہ ہوگئے۔ (جاری ہے)