آج کل سول سروسز اکیڈمی کی مشترکہ ٹریننگ کے بعد، پولیس گروپ کے افسران تربیت کے لیے نیشنل پولیس اکیڈمی، اسلام آباد جاتے ہیں، مگر اُس وقت ابتدائی ٹریننگ مُلک کے سب سے قدیم اور سب سے بڑے تربیتی ادارے پولیس کالج، سہالہ میں ہوتی تھی۔
سہالہ، قصبہ راول پنڈی سے کہوٹہ جانے والی سڑک پر واقع ہے، جس کے ساتھ سیکڑوں ایکڑ پرمشتمل پولیس ٹریننگ کالج، سہالہ ہے۔ کالج کا سربراہ (کمانڈنٹ) ڈی آئی جی رینک کا پولیس افسر ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) علیحٰدہ ہونے سے پہلے اے ایس پی صاحبان کی ٹریننگ راج شاہی کے قریب پولیس کالج، ساردہ میں ہوتی تھی۔
اُس کی یاد میں سہالہ کے آفیسرز میس کا نام ’’ساردہ میس‘‘ رکھ دیا گیاتھا۔ ہم بارہ زیرِ تربیت افسروں کو ساردہ میس میں چھے کمرے الاٹ کردیئے گئے۔جہاں ہم دو دو افراد ایک، ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوئے۔ یہاں ہمیں پہلی باروردی پہنائی گئی اور کندھوں پر اے ایس پی کے اسٹار بھی لگائے گئے۔
یہاں کا شیڈول سول سروسز اکیڈمی سے خاصا سخت تھا۔ سردیوں میں منہ اندھیرے اُٹھ کر پہلے پی ٹی کرتے اور پھر ڈرل کروائی جاتی۔ ڈرل کے انچارج استاد صادق (پولیس کے سب انسپکٹر) بڑے کہنہ مشق اور تجربہ کار ٹرینر تھے۔ گجرات کے قریبی گاؤں کے رہنے والے تھے اور زیرِ تربیت افسروں کو چند دنوں ہی میں جانچ لیتے تھے۔
ڈرل، کالج کے پریڈ گراؤنڈ میں کروائی جاتی، جہاں بینڈ اسٹاف موجود ہوتا، پریڈ گراؤنڈ میں موجود تمام افسر اورجوان بینڈ کے ڈرم (ڈگّا) کی آواز کے ساتھ قدموں کو ہم آہنگ کرنےکی کوشش کرتے تھے۔ آغاز میں کسی کا ایک پاؤں کراچی کی طرف جاتا، تو دوسرا پشاور کی طرف۔ استاد صادق صاحب ہر روز اس کی نشان دہی کرتے اور اس بات پر زور دیتے کہ ’’صاحب! ڈگّے سے قدم ملائیں۔‘‘
ڈگّے سے قدم ملانے کی ہدایت ہر روز دی جاتی۔ کیڈٹ کالج میں پانچ سال رہنے کے سبب میرے لیے پریڈ کوئی نئی چیز نہیں تھی، مگر بہت سے کولیگ چھے ماہ میں بھی ڈرل نہ سیکھ سکے۔ استاد صاحبان ہر روز ڈگّے کی اہمیت وفضیلت اس طرح سمجھاتے کہ لگتا کہ سہالہ کی ساری ٹریننگ ڈگّے ہی کے گرد گھومتی ہے۔
ٹریننگ کے آخری ہفتے میں ایک روز کے۔ پی سےتعلق رکھنے والا ہمارا کولیگ شوکت حیات (جو بعد میں آئی جی بن کر ریٹائر ہوا) استاد صادق سے ملا اور کہنے لگا۔ ’’استاد جی!آپ سے ایک ضروری بات پوچھنی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’پوچھیں، کیا پوچھنا ہے؟‘‘ کہنے لگا۔’’یہ بتائیں کہ ڈگّا کیا ہوتا ہے؟‘‘استاد بولے۔ ’’واہ صاب! چھے مہینے مَیں آپ کو ہرروز’’ہیر رانجھا‘‘ سُناتا رہا اور چھے مہینے بعد آپ پوچھ رہے ہیں کہ ہیرمرد تھا یا عورت۔‘‘
ڈی آئی جی عبدالقادر حئی کالج کے کمانڈنٹ تھے۔ اُن کی وجہ سے کالج میں ڈسپلن کا معیار بہت اعلیٰ تھا، علی الصباح گھوڑے پر سوار ہو کر پریڈ گرائونڈ میں آتے اور کالج کےمختلف شعبوں کا راؤنڈ لگاتے۔ خُود اچھے اسپورٹس مین تھے، اس لیے اے ایس پیز کو بھی رائیڈنگ اور اسپورٹس میں بہت مصروف رکھا۔ مَیں نے تو رائیڈنگ اور سوئمنگ گائوں ہی میں سیکھ لی تھی، جوحسن ابدال میں مزید بہتر ہوئی، مگر زیادہ تر کولیگ گھوڑوں سے بِدکتے بھی رہے اور گرتے بھی بلکہ آخردَم تک گھوڑوں کے ساتھ اُن کے تعلقات کشیدہ ہی رہے۔
اسپیشل بیج کے ایک دومعمّرکولیگ ہر روزگھوڑوں سے گرتے تھے، وہ صبح کی پی ٹی اور پریڈ سے بھی بہت پریشان ہوتے، لہٰذا اُنہوں نے ایک قوالی تخلیق کی، جسے رات کو اکثر کورس میں گایا جاتا کہ؎ پڑگیا یارو کس سے پالا… ہائے سہالہ، ہائے سہالہ۔
فزیکل ٹریننگ کے ساتھ ہمیں قانون اور عملی پولیسنگ کے مضامین بھی پڑھائے جاتے۔ مجھے یاد ہے،کالج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقعے پر اسٹیج سیکرٹری کی ذمّے داری مجھے سونپی گئی۔ پنجاب کے پہلی بار بننے والے وزیرِ اعلیٰ میاں نواز شریف مہمانِ خصوصی تھے۔ سہالہ میں چھے مہینےکی ٹریننگ کے بعد ہمیں بلوچستان رپورٹ کرنے کی ہدایات ملیں، مگر بلوچستان سے پہلے نیشنل پولیس اکیڈمی کی ٹریننگ کا ذکر ضروری ہے۔
بلوچستان میں سبّی،جھٹ پٹ اورکچھ دیرکوئٹہ میں آن دی جاب ٹریننگ کے بعد ہمیں نیشنل پولیس اکیڈمی، سواں کیمپ میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ پنڈی کہوٹہ روڈ پر واقع ایک پہاڑی پرPIDC کا ریسٹ ہائوس تھا، جسے نیشنل پولیس اکیڈمی میں تبدیل کرکے وہاں اے ایس پیز کو ٹریننگ دی جاتی۔ سہالہ کی ٹریننگ رنگروٹانہ، مگرسواں کا ماحول افسرانہ تھا، لاء کے ٹیچرز کا معیار بھی بلند تھا۔
پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ صاحبزادہ رئوف علی خان تھے، جو پنجاب کے آئی جی بھی رہ چُکے تھے، بہت پڑھے لکھے، بااعتماد اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ اکیڈمی کے وسائل کم تھے، ایک سوزوکی کار سابق آئی جی صاحب کو لینے جاتی، صاحب زادہ صاحب ہمیں پولیس ایکٹ اور پولیس رُولز پڑھاتے تھے۔ اُن کالیکچر انگریزی میں، مگر اردو، فارسی کے اشعار اور دل چسپ، مفید واقعات سے مزیّن ہوتا۔
سواں کی ٹریننگ کی سب سے خُوب صُورت بات صاحب زادہ صاحب کے لیکچرز ہی تھے، کبھی کبھار کسی گیسٹ اسپیکر کو بھی بُلا لیا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بارمَیں اور غالباً شبیر شیخ قومی اسمبلی کےاجلاس کی کارروائی دیکھنےگئے۔ اُس وقت کے وزیرِ داخلہ اسلم خٹک صاحب باہر نکلے، تو ہم اُن کے پیچھے بھاگے۔ مَیں نے آگے بڑھ کر تعارف کروایا اور نیشنل پولیس اکیڈمی آکر زیرِ تربیت اےایس پی صاحبان سےخطاب کی دعوت دی، جوانہوں نے قبول کرلی اور اپنے اسٹاف کو ہدایات بھی دیں۔
اسٹاف نے اکیڈمی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور دو ہفتے بعد وزیرِ داخلہ سواں کیمپ پہنچ گئے۔ اسلم خٹک کےساتھ ہمارے بیج کا گروپ فوٹواب بھی پولیس اکیڈمی کی نئی بلڈنگ میں لگا ہوا ہے۔صاحب زادہ صاحب ریٹائر ہوئے، تو راٹھور صاحب کمانڈنٹ بن کر آگئے۔ راٹھور صاحب نے ملازمت کا زیادہ عرصہ دفاتر میں گزرا تھا، فیلڈ کا تجربہ نہ ہونے کے سبب اُن میں خُود اعتمادی اور قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان تھا، جو باقاعدہ نظر بھی آتا تھا۔
ہمارے بیج کی ٹریننگ شبِ فراق کی طرح بڑی ہی طویل ہوگئی تھی۔ خدا خدا کرکے سارے تربیتی مراحل مکمل اور فائنل امتحان ہوا، جو فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے لیا۔ فزیکل ٹیسٹس میں مجھ سے صرف ایک کولیگ (آرمی سے پولیس میں induct ہونے والے کپتان) کے نمبر زیادہ تھے، مگرچوں کہ تحریری اورفزیکل امتحانات کے کُل نمبرز میرے ہی زیادہ تھے، لہٰذا اُس بیج کا "All Round Best ASP" مجھےقرار دیاگیا اوراکیڈمی کی ایک نمایاں دیوار پرآویزاں بورڈ پرمیرا نام بھی لکھ دیا گیا۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے زیرِاہتمام سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس اورڈی ایم جی کےلیےمنتخب ہونےوالے افسران کی خدمات مختلف صوبوں کےسپرد کردی جاتی ہیں۔ ہماری دفعہ مقابلے کےامتحان کے ذریعے مجھ سمیت صرف پانچ لوگ پولیس سروس کے لیے منتخب ہوئے۔ جنرل ضیا الحق نےدیہی سندھ، بلوچستان اور فاٹا کے لیے ایک اسپیشل امتحان منعقد کروا کے سپیرئر سروسز میں ڈیڑھ دو سو کے قریب مزید اسامیاں مخصوص کردیں، تو اِس اسپیشل امتحان کےذریعےمزید سات لوگ پولیس میں آئے اور اس طرح گیارہویں کامن میں پولیس گروپ کی تعداد بارہ ہوگئی۔ جن میں سے پانچ کی خدمات بلوچستان کےسپردکردی گئیں۔
صوبہ بلوچستان جانے والے اُن پانچ زیرِتربیت افسران (Probationers) کو ’’مظلومین کا ٹولہ‘‘ قرار دیا گیا اوراُن ہی مظلومین میں ایک راقم بھی تھا۔ یہ جان کرکہ اب پولس کپتانی اُس دور درازعلاقے میں ہوگی، جہاں کسی عزیز، رشتےدار یا دوست کا آنا جانا محال ہے، سارےارمانوں پر ٹھنڈا یخ پانی پڑگیا۔ سول سروسز اکیڈمی، پولیس کالج سہالہ کی ٹریننگ کے بعد عملی تربیت کے لیے بلوچستان جانے کا وقت آیا تو مورال قدرے ڈاؤن تھا۔
ماموں جان (جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب) مجھے اسلام آباد ائرپورٹ چھوڑنے آئے اور راستے اور لاؤنج میں سارا وقت Morale boosting کرتے رہے۔ کوئٹہ ائرپورٹ پر اُترا تو پولیس کے ایک بڑے اسمارٹ افسر نے استقبال کیا، باہر چمکتی ہوئی جیپ کھڑی تھی۔ وہاں پہنچے، تو ڈرائیور اورگن مین نےایسا زبردست سیلیوٹ کیا کہ پست مورال خاصا بلند ہوگیا۔
کوئٹہ میں پہلی کال آن میٹنگ ایس ایس پی کوئٹہ ملک محمد اشرف (مرحوم) کے ساتھ تھی، جو نوجوان افسروں کو بددل کرنا غالباً اپنےایمان کا حصّہ سمجھتے تھے۔ اور اِس ضمن میں انہوں نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ پہلی ملاقات ہی میں فرمانے لگے کہ ’’پولیس میں ترقّی کا عمل بہت سُست ہے، اس لیےآپ لوگ شاید ایس پی کےطور پر ہی ریٹائر ہوجائیں۔‘‘ کچھ کولیگ بہت مایوس ہوئے، مگر مَیں نے بزرگوں کی حوصلہ افزا باتوں کے بعد مایوس ہونا چھوڑ دیا تھا بلکہ دوسروں کو حوصلہ دینے کا فریضہ سنبھال لیا تھا۔
فروری 1985 ء کے یہ چند روز (جب کہ کوئٹہ کا موسم بھی بہت خوش گوار تھا) خُوب گزرے۔ مختلف سروسز کے بہت سے دوست کوئٹہ میں تعینات تھے یا ٹریننگ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کی طرف سے کھانے کی دعوت ہوتی۔ شام کوجناح روڈ پر ونڈو شاپنگ کی جاتی، جہاں ایک اسٹور پر اکثر نواب اکبر بگٹی مرحوم بیٹھے نظر آتے، کبھی کبھار اُن سے گپ شپ بھی ہوجاتی۔ چند روز بعد ہمیں صوبے کے آئی جی سعادت علی شاہ صاحب سے ملوایا گیا۔ بہت اعلیٰ پائے کے افسر تھے۔
ہم سُن چُکے تھے کہ چند روز پہلے گورنر بلوچستان، جنرل رحیم الدین نے (مارشل لاء دَور میں صوبوں کے چیف ایگزیکٹیو گورنر ہوتے تھے) کسی تقریب میں پولیس سے متعلق توہین آمیز کلمات کہے، تو آئی جی صاحب احتجاجاً اٹھ کرچلے گئے اور جا کر اپنا استعفٰی بھجوا دیا۔ بعد میں گورنر نے معذرت کی۔ بدقسمتی سےاب بڑے افسروں کو اپنی اورفورس کی عزت سے زیادہ نوکریوں اور عُہدوں سے پیار ہے، اسی لیےاصولوں پر اختلاف کی روایت دَم توڑچُکی ہے۔ آئی جی صاحب سے ملاقات بہت اچھی رہی۔
اُنہوں نے سروس سے متعلق شان دارنصیحتیں کیں اور پرچیوں کے ذریعے ہم پانچوں کو عملی تربیت(on the job Training) کے لیے مختلف ضلعے الاٹ کر دیئے۔ قسمت نے یہاں بھی ساتھ نہ دیا اورکسی ٹھنڈی جگہ کی بجائے مجھے ضلع سبّی الاٹ ہوا یا میں سبّی کو الاٹ ہوگیا۔ ایک دوسرے کولیگ کو نصیرآباد مل گیا۔ کوئٹہ سے سبّی اور نصیر آباد کی طرف چلے، تو دُور دُور تک کوئی انسانی بستی یاذی روح نظرنہ آیا۔ بےآب و گیاہ کےمعنی اُس سفر میں سمجھ آئے۔
فروری کا اوائل تھا۔ کوئٹہ میں موسم ٹھنڈا اور خوش گوار تھا، سبّی کے قریب پہنچے تو سبّی پولیس کی گاڑی لینے آئی ہوئی تھی، جس میں بیٹھنے کے لیے نیچے اُترا تو چند ہی لمحوں میں گرمی نے اپنا آپ محسوس کروادیا۔ سِبّی کی اوائل فروری کی وہ تپش مجھے آج بھی یاد ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ سب سے پہلے پولیس ریسٹ ہاؤس چلیں گے۔
کچھ دیر بعد پلستر سے بے نیاز دو کمروں کی ایک چھوٹی سی عمارت کے صحن میں گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ کھڑی ہوگئی، تو ڈرائیور بولا۔ ’’صاحب! اُتریں، ریسٹ ہاؤس آگیا ہے۔‘‘ گاڑی سے زیادہ دل کو دھچکا لگا، نیچے اُتر کر دیکھا، تو دو افراد صحن میں لگی بیریوں کے بیر چُن رہے تھے۔
ڈرائیور نے انہیں’’مہمان‘‘ کی طرف متوجّہ کرنےکی کوشش کی، مگر وہ اپنے’’مشن‘‘ میں مگن رہے۔ کچھ دیر بعد دونوں اُٹھےاور ایک نے مصافحےکے لیے ہاتھ آگے کردیا۔ مَیں نے ہاتھ بڑھایا، تو بولے۔ ’’بیر کھائیے، مَیں یہاں ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر ہوں۔‘‘ ’’توکیا ایس پی صاحب بھی یہیں ہیں؟‘‘ میرے استفسار پر اُنہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’جی جی، وہ بھی بیرخوری کے بہت شوقین ہیں۔
ویسے یہاں کا بیر ہے ہی بڑا لذیذ اور میٹھا۔‘‘مطلب، ہماری پہلی گفتگو زیادہ تر بیر اور بیری ہی کے گرد گھومتی رہی۔ اُن کی رخصتی کےبعد مَیں کمرے میں آگیا۔ نہانے کے لیے باتھ روم گیا، ٹونٹی کھولی تو جلتے ہوئے پانی نے ہاتھ اس طرح جلا دیئے کہ تاثیر رُوح تک سرایت کر گئی۔ (بخدا وہ جلن بھی آج تک یاد ہے) فوری تڑپ کرپیچھے ہٹا اور صحن میں بیری کی چھاؤں تلے آگیا۔ ریسٹ ہاؤس کا ملازم بھی آپہنچا، جس نے پہلے ایک شعر سُنایا اور پھر ایک مشورہ دیا۔ مجھے دونوں آج تک نہیں بھول سکے۔
علاقے کی گرمی سے متعلق کسی شاعرکا یہ مشہور شعرسب سے پہلے سبّی کے پولیس ریسٹ ہاؤس ہی میں سُناتھا کہ ؎ سبّی و ڈھاڈر ساختی… دوزخ چراپرداختی (اے ﷲ سبّی اورڈھاڈر(سبّی کا ہم سایہ شہر) جو بنا دیئے تھے، تو پھر دوزخ بنانے کی کیا ضرورت تھی)۔ جب کہ وہاں رہ کر اُس کے قیمتی مشورے پر بھی ہمیشہ عمل کیا۔ یعنی ایک مٹی کا مٹکا باتھ روم میں رکھوا دیا۔ اُسے پانی سے بَھردیا جاتا اور پھر اُسی پانی سے مَیں نہایا دھویا کرتا۔
ٹونٹی کے پانی کو ہاتھ لگانےکا پھر کبھی رسک نہیں لیا۔ کمرے یا دفتر میں اے سی کا کوئی تصوّر ہی نہیں تھا، لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی تھی۔ پنکھا بند ہوتا تو میں لُوکی دُعا مانگتے ہوئے پک اپ(جو مجھے الاٹ کی گئی تھی) لے کر سڑک پر نکل جاتا اور گرم لُو سے پسینہ سُکھاتا۔ ضلع سبّی کے ایس پی عطاء اللہ غرشین صاحب رینکر اور بہت شریف آدمی تھے، صرف اُن کی جیپ میں اے سی تھا۔ وہ گشت کے وقت کبھی کبھار ٹھنڈی گاڑی میں مجھے بھی ساتھ بٹھالیتے، تو وقت اچھا گزر جاتا۔
چند روز بعد سِبّی کا تاریخی میلہ منعقد ہونا تھا۔ پہلے روز گورنر اور آخری روز صدر ضیاالحق مہمانِ خصوصی تھے۔ سیکیوریٹی کے انتظامات میں، مَیں بھی پوری طرح انوالو رہا، تو وی وی آئی پیز کی سیکیوریٹی کےضمن میں بڑی اچھی ٹریننگ ہوگئی۔ یہ تاریخی میلہ ایک بہت بڑی ثقافتی تقریب ہونے کے ساتھ، کاروباری واقتصادی سرگرمیوں کے فروغ میں بھی بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
میلے میں بہت رونق ہوتی ہے اور غریب،پس ماندہ علاقےکےلوگ بہت لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ امن وامان اور سیکیوریٹی کی ذمّے داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ مَیں ہر روز سِبّی کے اکلوتے پولیس اسٹیشن بھی جاتا اور جا کر تھانے کا کام سیکھتا۔ ایک مہینے بعد شہر کے ڈی ایس پی کاتبادلہ ہوگیا،تواُس کاچارج مجھے دے دیا گیا۔
دوسرے الفاظ میں میری ٹریننگ ختم ہوگئی اور مَیں باقاعدہ سب ڈویژنل پولیس آفیسر کےفرائض انجام دینے لگا۔ سِبّی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا۔ ضلع سِبّی کےایس پی صاحب واجبی تعلیم کے باعث محدود ویژن کے مالک تھے، مگر ڈی آئی جی کرنل (ر) راجا محمد اسلم بڑے قابل، بااصول اور بہت پڑھے لکھے آدمی تھے، اس لیے میرا زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرنے لگا اور اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
مجھے یاد ہے ہم نے14 اگست کو یومِ آزادی کا بڑا بھرپورجلسہ منعقد کیا، جس میں ڈی آئی جی صاحب مہمانِ خصوصی تھے۔ ہمارا دائرہ اختیار سبّی شہر کی میونسپل حدود تک محدود تھا، اُس سے آگے بی ایریا شروع ہوجاتا تھا،جہاں امن وامان کی ذمّےداری پولیس کی بجائے لیویز کی تھی۔ یہ انگریز کا بنایا ہوا سسٹم تھا، جو ہنوز سرداروں اور افسر شاہی نے اپنے مفادات کی خاطرقائم رکھا ہوا تھا۔ (جاری ہے)