حفیظ اللہ نیازی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بہنوئی ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی پروفیشنل کالم نگار صحافی یا تجزیہ نگار نہیں ہیں بلکہ شوقیہ کالم نگاری کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تحریر بے اولاد بیوہ کی طرح ہوتی ہے کہ جس کا نہ آگے کچھ ہوتا ہے اور نہ پیچھے۔ حفیظ اللہ نیازی کی تحریر کا ایک لفظ دوسرے لفظ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح ان کی تحریروں کے ایک جملے کا دوسرے جملے سے وہی تعلق ہوتا ہے جیسے ایک آدمی کی دو بیویوں اور سوتنوں کا ہوتاہے۔
جب سے ان کے بھائی انعام اللہ نیازی کو 11مئی 2003ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا اس وقت سے عمران خان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دینے والے حفیظ اللہ نیازی کو عمران خان زہر سے بھی برا لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
عمران خان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے حفیظ اللہ نیازی کو آج عمران خان میں ایک بھی ڈھنگ کا وصٖف نظر نہیں آرہاہے۔ 15 فروری 2013ء میںPTI کے ٹکٹ پر میانوالی سے الیکشن لڑ کر پارٹی کے فنڈز کا بیڑہ غرق کر کے شکست فاش حاصل کرنے والے حفیظ اللہ نیازی کو آج PTIمیں فنڈز کی خوردبرد اور ضیاع کا دردِ عظیم اُٹھا ہوا ہے۔
سیاسی جماعتوں سے تعلق اور قطع تعلقی سیاست کا ایک اہم جزو ہے لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت قطع تعلقی کرنے والے کسی شخص اور سیاستدان سے مسلسل زیادتی کی مرتکب نہیں ہوتی تو اس وقت تک وہ شخص اور سیاست دان بھی سابق پارٹی اور جماعت کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتا اور یاد ماضی بھلا کر آگے کا رخ کرتا ہے،بالکل اسی طرح تحریک انصاف سے قطع تعلقی بھی حفیظ اللہ نیازی نے اپنی مرضی سے کی اور دلچسپ بات یہ کہ قطع تعلقی کرتے وقت موصوف نے عمران خان اور PTI کی عزت کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آج تک یہ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود اس وقت سے لے کر آج تک عمران خان اور PTI کی کسی قومی اور صوبائی سطح کے لیڈر شپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا لیکن افسوس کی بات ہے موصوف کی ’’چوں چوں‘‘ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ صبح ناشتہ کرتے ہیں تو عمران خان پر تبریٰ بھیجتے ہیں۔ دن کو لنچ کرتے ہیں تو عمران کان کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں رات کو ڈنر کرتے ہیں تو عمران خان کی ذات کو استہزاء کا شکار کرتے ہیں۔
عزت وقار اور اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ موصوف نے جب عمران خان سے اپنے سیاسی رشتے کو ختم کر دیا تھا تو کم از کم اپنے خاندانی رشتے کا احساس اور عمران خان کی ذاتی اور خاندانی عزت کا خیال کرتے ہوئے عمران خان کی ذات اور سیاست پر چپ سادھ لیتے۔بالکل اسی طرح جیسے عمران خان اورPTI نے ان کے حوالے سے موقف اپنا رکھا ہے لیکن موصوف کی تنقید دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اپنی اسی تنقید سے موصوف عزت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف اپنی تازہ ہرزہ سرائی میں فرماتے ہیں کہ نواز شریف سے ملاقات کے وقت مری روڈ سے لے کر عمران خان کے گھر تک 95کروڑ کی سڑک کا مطالبہ عمران خان کے شانِ شایان نہیں تھا۔ میری موصوف سے التماس ہے کہ نبی پاکﷺ کے فرمان کے مطابق کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کر رہا ہے۔ جناب والا آپ کو کہاں سے وحی ہوئی ہے کہ عمران خان نے نواز شریف سے اس سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ صریحاً جھوٹ اور لغو!!!! عمران خان کی طرف سے قطعاً ایسا کوئی مطالبہ نواز شریف سے نہیں کیا گیا۔ جہاں تک بات بنی گالہ کے CDAپارک پر ناجائز قابضین کی ہے یہ مطالبہ بنی گالہ اور مل پور کے رہنے والے ہزاروں مکینوں کا تھا جس کو پورا کرنے کیلئے عمران خان سپریم کورٹ بھی گئے تھے۔ ویسے بھی یہ پارک عمران خان کی رہائش گاہ کے سامنے، پیچھے یا دائیں بائیں نہیں ہے بلکہ ایک میل سے بھی زیادہ دور واقع ہے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ میانوالی کا حلقہ عمران خان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔ جناب والا اگر آپ کو حقائق کا علم نہیں تو اس میں عمران خان کا کیا قصور!!!!!
میانوالی کی نمل یونیورسٹی، میانوالی میں بجلی، پانی اور سولر انرجی کے پراجیکٹس، پانی کی بچت کرنے کے لئے موٖضعہ ’’تبی سر‘‘ میں ڈیم کی تعمیر عمران خان فائونڈیشن کے تحت عوامی فلاح و بہبود کے بیسیوں پراجیکٹ، 95 کلو میٹر سے زائد کی سڑکیں اور ٹریک کی تعمیر.....اپوزیشن میں ہونے کے باوجود عمران خان کے یہ کارنامے بیان کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی کی زبان میں لکنت کیوں آجاتی ہے!!!!اپنے بھائی کو ٹکٹ نہ ملنے کا تعصب عمران خان کے میانوالی کی عوام کے لئے سرانجام دیئے گئے ان کارناموں کو بیان کرنے کے آڑے کیوں آجاتا ہے!
حفیظ اللہ نیازی صاحب!KPKمیں پولیس کو غیر سیاسی کرنا اور پٹوار خانوں کو کرپشن کی نحوست سے نجات دلانا انڈیا کے نریندر مودی کا کارنامہ ہے یا عمران خان اور PTI کا!! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق KPK کا صوبہ این پی کی کرپٹ اور نااہل حکومت کی نسبت اب صاف، شفاف اور اہل افراد کے ہاتھ میں ہے یہ کارنامہ بھی شاید بی جے پی کے واجپائی کا ہے PTI کے عمران خان کا نہیں !!
رائیٹ ٹو انفارمیشن اور رائیٹ ٹو سروسز کی طرح کے قوانین کہ جس کی تعریف عالمی ادارے کر رہے ہیں پتہ نہیں کیوں حفیظ اللہ نیازی کے دل میں جگہ نہیں حاصل کر پا رہے!!پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بیوائوں، معذوروں اور بے روزگاروں کے لئے دس دس ہزار کے وظیفے پتہ نہیں کیوں حفیظ اللہ نیازی کی آنکھوں میں نہیں سما پا رہے!!پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی ہی حکومت کو کمزور کرنے کا رسک لے کر اپنی اتحادی پارٹی کے وزیروں کو فارغ کرنا شایدPTI اور عمران خان کا نہیں بلکہ کانگریس کی سونیا گاندھی کا کارنامہ ہے!!پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ تعلیم کیلئے 20 فیصد اور صحت کیلئے 6فیصد سے زائد کا بجٹ رکھنا کیا عمران خان اور PTIکا امتیاز نہیں ہے!!KPKکے تھانوں میں خواتین کے لئے علیحدہ رپورٹنگ روم اور عملے کی تعیناتی کا فیصلہ حفیظ اللہ نیازی صاحب کس کے کھاتے میں ڈالیں گے!!KPKمیں غریب عوام کی فری انجیو گرافی اور انجیو پالسٹی کا فیصلہ اور پھراس کا آغاز کیا عمران خان کی تعریف کا باعث نہیں ہے!!ترقیاتی کاموں میں ایم این ایز اور اپم پی ایز کی اربوں روپے کی کرپشن کے خاتمے کیلئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ غیر جانبدار کنسلٹنٹ کے ذریعے ترقیاتی کاموں کی سُپر ویژن کیا قابل تحسین نہیں ہے!!
اسی طرح کے بیسیوں اور اقدامات ہیں جو تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں پہلی دفعہ KPKمیں شروع کیے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ حفیظ اللہ نیازی جسے فرد کی آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں۔
میری حفیظ اللہ نیازی سے بصد احترام گزارش ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین بعد میں ہیں پہلے وہ آپ سے خون کے رشتے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ خاندانی حسب نسب اور نسل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خدارا اپنی اس بے وقت کی راگنی کو بند کریں اور اپنی توپوں کا رخ ان قائدین انقلاب کی جانب موڑیں جن کی مسلسل 40سال کی انتھک محنت سے آج پاکستان معاشی، معاشرتی دفاعی اور جغرافیائی تباہی و بربادی تک پہنچ چکا ہے اور جن کی قیادت کا چغہ اور تاج آپ کے بھائی ایک دفعہ پھر اپنے سر پر سجانے کو بے تاب ہیں۔ !!