IPPs معاہدے جنہیں میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں ملکی معیشت کیلئے رسک قرار دیا تھا اور اس مسئلے کو پارلیمنٹ، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں، FPCCI اور اسلام آباد چیمبر کے پلیٹ فارمز سے اٹھایا تھا۔ اس مشن میں میرے ساتھ سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز، یونائیٹڈ بزنس گروپ کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر، فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام بھی شامل تھے۔ مجھے آج یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بزنس کمیونٹی کے دبائو کی وجہ سے 5آئی پی پیز نے رضاکارانہ طور پر اپنے معاہدے معطل کردیئے ہیں جس سے حکومت کو معاہدے کی بقایا مدت میں411 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ ان IPPS میں Rousch پاور، صبا پاور، اٹلس پاور، لال پیر پاور اور حبکو پاور شامل ہیں۔ ان IPPs نے 1994 ء میں حکومت سے معاہدے کئے تھے جن کی رو سے ان IPPs کے بند ہونے اور بجلی نہ خریدنے کی صورت میں بھی حکومت کو کیپسٹی چارجز کی مد میں ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ معاہدہ معطل ہونے کے بعد حکومت کو اب انکے 71ارب روپے کے کیپسٹی چارجز کے واجبات بغیر سود ادا کرنے ہیں۔
ان IPPs میں Rousch پاور پلانٹ جو BOOT ماڈل پر تھا، کے علاوہ تمام پاور پلانٹ مالکان کی ملکیت میں ہی رہیں گے۔ دوسرے مرحلے میں وزیر توانائی اویس لغاری کی ٹاسک فورس نے سی پیک منصوبوں کے علاوہ 2002ء پالیسی کے تحت لگائے گئے 18آئی پی پی جو اپنی سرمایہ کاری پر کئی گنا منافع کما چکے ہیں، کو اب رضاکارانہ طور پر کیپسٹی چارجز کے بجائے Take & Pay ماڈل پر تبدیل کیا جا رہا ہے جس میں حکومت کو کیپسٹی چارجز ادا نہیں کرنے پڑیں گے اور یہ IPPs حکومت کو CTBCM یعنی مقابلاتی نرخوں پر بجلی سپلائی کرسکیں گے۔
1998 ء میں مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں 11آئی پی پیز میں اوورانوائسنگ، کرپشن اور بے ضابطگیاں سامنے آئیں جس پر حکومت نے ان IPPs کے معاہدوں پر نظرثانی کرنے اور بصورت دیگر ان کے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا لیکن ان IPPs کے بااثر مالکان، اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے گٹھ جوڑ کرکے آڈٹ سے بچ نکلے۔ یہی کچھ عمران خان دور حکومت میں ہوا اور حکومت نے اس حساس اور پیچیدہ مسئلے پر کارروائی کرنے کے بجائے آنکھیں بند کرنے کو ترجیح دی۔ اس سلسلے میں میرے دوست سابق نگراں وزیر توانائی محمد علی کی رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے جن کے مطابق ان IPPs کو کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگی کی گئی۔ صرف 2023-24ء میں 33آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز کی مد میں 979.3ارب روپے ادا کئے گئے جس میں چائنا پاور حب کمپنی (CPHGC) کو 137ارب روپے، Ruyi کمپنی کو 114 ارب روپے، پورٹ قاسم پاور کمپنی (PQEPC) کو 120 ارب روپے، تھرکول کمپنی کو 160ارب روپے، اینگرو پاور جنریشن کو 63ارب روپے، لکی الیکٹرک کو 57ارب روپے اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں۔
ان ادائیگیوں سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 2655 ارب روپے تک پہنچ گئے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا جو آج ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے۔ ہماری صنعتوں کا ٹیرف 17سینٹ فی یونٹ ہے جبکہ ہمارے مقابلاتی حریفوں کا صنعتی ٹیرف آدھا یعنی 8سینٹ فی یونٹ ہے۔ صنعتیں غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے بند ہونا شروع ہوگئی ہیں جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ IPPs کے مسئلے کو دوبارہ اٹھانے پر اس بار کسی سمجھوتے کے بجائے اہم فیصلے کئے گئے جس سے مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوگی۔ بیگاس سے بجلی پیدا کرنیوالے ایک بااثر سیاستدان نے اپنے آئی پی پی معاہدے میں نہایت مہنگا ٹیرف حاصل کیا تھا جس پر نظرثانی کرکے اسے کم کیا جارہا ہے۔ IPPs معاہدوں میں کچھ غلط فیصلے بھی تھے جس میں ساہیوال میں امپورٹڈ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ شامل ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ امپورٹڈ کوئلے سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دوسرے پروجیکٹس بھی 3 سے 5 سال میں مقامی کوئلے پر منتقل کئے جائیں جس سے بجلی کے ٹیرف میں 3.60 روپے فی یونٹ کمی آئے گی۔ 5ستمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہمیں 22000 میگاواٹ کے 93آئی پی پیز کی فہرست فراہم کی گئی تھی جس میں 52فیصد بڑے منصوبے وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کے تھے جن پر کیپسٹی چارجز وصول کئے جارہے ہیں۔
ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتی IPPs کے 692 ارب روپے کے کیپسٹی چارجز کی ادائیگی ختم کی جائے جس سے پاور ٹیرف میں 8سے 10 روپے فی یونٹ کمی ہوسکتی ہے جبکہ چائنیز IPPs کے قرضوں کی ری پروفائلنگ سے بھی بجلی کے ٹیرف میں 3.75 روپے فی یونٹ کمی ہوگی۔ صرف چائنیز IPPs کے بقایا جات 2 ارب ڈالر یعنی 550 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جنہیں پاکستان نے چین سے موخر کرنے اور قسطوں میں ادائیگیوں کی درخواست کی ہے۔ اس وقت حکومت بجلی کے بلوں میں 8 روپے فی یونٹ ٹیکسز کی مد میں وصول کررہی ہے جس کو 50فیصد کم کیا جاسکتا ہے۔ ان اقدامات اور IPPs معاہدوں پر نظرثانی سے مجھے امید ہے کہ گھریلو صارفین کو قابل برداشت نرخوں پر بجلی دستیاب ہوگی اور صنعتوں کو مقابلاتی بنانے کیلئے 9 سینٹ فی یونٹ بجلی سپلائی کی جاسکے گی جس سے ملکی معاشی گروتھ تیز ہوگی۔