گزشتہ ماہ ہونے والےشنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق ممبر ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں مقامی کرنسیوں کا استعمال بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئے اقتصادی اداروں کے قیام میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے تسلط کو کم کیا جا سکے۔یاد رہے کہ 1945ء میں جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میںلایا گیاتو اینگلو امریکن دبائو کے تحت کچھ نئے ادارے بنائے گئے جن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک (IBRD)اور انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اداروں کو اپنے تسلط میں فروغ دیا گیا تاکہ عالمی معیشت پر ہمیشہ کیلئے قبضہ کیا جا سکے لیکن 1953کے بعد سوویت یونین نے تیسری دنیا کے ممالک کو اکٹھا کر کے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے تجارت اور انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کے ادارےUNCTADاور UNIDO بنائے جنہوں نے یورپ سے تیسری دنیا تک ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کو ممکن بنایا اور پیرس کلب بنانے کی راہ ہموار کی ۔اس سے تیسری دنیا کے ممالک کا قرضہ کم ہوا اورساتھ ساتھ 1991ء تک پچاس غریب ممالک کے 6.5بلین ڈالرز کے قرضے معاف کروائے گئے۔اجناس کے عالمی معاہدے کروائے گئے اور لینڈ لاکڈ ممالک کو بہت ساری مراعات دی گئیں لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعدیہ ادارے قائم رہنے کے باوجود غیر موثر بنا دیے گئے اور ان اداروں کی ذمہ داریاں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او کو منتقل کر دی گئیں۔آج شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے فورم پر چین کی قیادت میں تیسر ی دنیا کے ممالک کو اسی طرح سرگرم ہونا ہوگا جس طرح 1953ء کے بعد سوویت یونین کی قیادت میں یہ ممالک سرگرم نظر آئے تھے۔اگر برکس اور ایس سی او کے ممالک کے درمیان تعاون کامیابی سے آگے بڑھا توا س سے نہ صرف ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوگی بلکہ تیسری دنیا پر امریکی تجارتی پابندیاں بھی بے اثر ہو جائیں گی۔موجودہ شنگھائی تعاون تنظیم کا موازنہ سوویت یونین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جس نے 1917ء کے انقلاب کے بعد نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو تقویت بخشی بلکہ ان ممالک کے بنیادی صنعتی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چین، شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعےتیسری دنیا کے ممالک کے بنیادی صنعتی ڈھانچے اور بارٹر ٹریڈ کی پالیسیوں کو تقویت بخشے۔ یاد رہے کہ بھارت کی 35فیصد ، ایران کی70فیصد اور مصر کی 95فیصد اسٹیل کی صنعتیں سوویت یونین کی مدد سے تیار ہوئی تھیں جبکہ عراق کو بجلی پیدا کرنے کے 55فیصد ، افغانستان کو 60فیصد اور شام کو 70فیصد پلانٹ لگا کر دیے گئے تھے۔چین کو تیسری دنیاکے ممالک کی مدد کرتے وقت یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ سوویت یونین نے جو امداد تیسری دنیا کو دی تھی ، وہ یاتو گرانٹ کی شکل میں تھی یا کریڈٹ کی شکل میں ،جو طویل المدتی قابل واپسی ہونے کے ساتھ ساتھ کم ترین شرح سود پر دی جاتی تھی۔مثلاً بارہ سال پر محیط کریڈٹ کی رقم صرف 3فیصد شرح سود پر دی جاتی رہی جبکہ تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک نے یہ قرض ان مصنوعات کی شکل میں واپس کیا جو روس کے اپنے ہی لگائے ہوئے کارخانوں کی پیداوار تھی۔اس کے علاوہ خام مال کی شکل میں بھی قرضوں کی واپسی کی گئی مثلاً لیبیا نے سوویت یونین کو تیل کی شکل میں اپنا قرضہ واپس کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ سویت یونین نے تیسری دنیا میں جتنے بھی ترقیاتی پروجیکٹس لگائے ، وہ وسیع البنیاد منصوبے تھے مثلاً مصر میں اسما ڈیم ، انڈیا میں بھیلائی ڈیم اور انڈونیشیا میں نیشنل سٹیڈیم کمپلیکس کے منصوبے۔ سوویت یونین نے انڈیا میں چالیس بڑے پروجیکٹس لگائے جو ہیوی انڈسٹری، آئل انڈسٹری ، میٹلرجی اور پاور سیکٹر میں تھے۔آج سے کچھ عرصہ قبل پاکستان اور روس نے ماسکو میںایک مفاہمت نامے پر دستخط کرکے باقاعدہ طور پر بارٹرتجارت کو حتمی شکل دے دی ہے ۔پاکستان جو اس وقت شدید زر مبادلہ کے بحران میں مبتلا ہے ، اپنے پڑوسی ممالک ایران، افغانستا ن اور روس کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے نہ صرف مال کے بدلے مال کی تجارت دونوں ممالک کیلئے سود مند ہوگی بلکہ باہمی تجارتی حجم بھی بڑھے گا اور زر مبادلہ کی بھی بچت ممکن ہو سکے گی۔اس کے علاوہ روس کوبھی یوکرین جنگ کے بعد چین کے ساتھ تجارت میں ادائیگیوں کے مسائل درپیش ہیں ۔گو کہ پاکستا ن اور روس کے درمیان انفرادی کمپنیوں کی سطح پربارٹر تجارت کے معاہدے تشکیل پائے ہیں جس میںایک روسی کمپنی نے بیس ہزار ٹن چنے کے بدلے بیس ہزار ٹن چاول کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے جبکہ دوسری روسی کمپنی نے پندرہ ہزار ٹن چنے اور دس ہزار ٹن دالوں کے بدلے میں پندرہ ہزار ٹن کینو اور دس ہزار ٹن آلو کی تجارت پر اتفاق کر لیا ہے۔اس طریقہ تجارت سے مغربی ممالک کو ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے مواقع کم ملتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ کرنسی کے خطرات بھی کم سے کم ہو جاتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ چین آج سویت یونین کے مقابلے میں بڑی اقتصادی طاقت بن چکاہے اور اسکو امریکی یلغار کا مقابلہ کرنا بھی آتا ہے لیکن شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے فوائد، ممبر ممالک اسی وقت اٹھا سکتے ہیں جبکہ یہ ممالک ایک مشترکہ کرنسی رائج کرنے کیساتھ ساتھ بارٹر ٹریڈاوریونیڈو اور یونیکٹاڈ کی طرز پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ادارے تشکیل دیں تاکہ ممبر ممالک کے درمیان ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے ذریعے صنعتی ترقی ممکن ہو ۔