سنا ہے پھر سے آئینی ترامیم ہونے والی ہیں۔ سنا ہے کہ بڑی لگن سے مجوزہ ترامیم زیر غور ہیں۔سنا ہے کہ ان ترامیم کی تعمیل اور تکمیل کے بعد سب کچھ ملک میں ٹھیک ہو جائے گا۔ بھینس اور بائولے کتے ایک گھاٹ سے پانی پی سکیں گے۔ کالا بکرا ترکیب لڑا کر شیرنی سے شادی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف ہمیں قرض دینے کی بجائے ہم سے مالی امداد لے کر غریب اور نادار ممالک کی امداد کرے گا۔ انگلستان کا بادشاہ کینسرکا علاج کرانے لاہور آئے گا۔ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ سنا ہے کہ ترامیم کی تعمیل اور تکمیل کے بعد لوگ کھڑے کھڑے، لیٹے لیٹے، سوتے سوتے، کام پر جاتے ہوئے اور کام سے واپس آتے ہوئے اچانک پُراسرار طور پر غائب ہونا چھوڑ دیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، مگر یہ سنی سنائی بات نہیں ہے۔ آنکھوں دیکھی بات ہے۔ میں اور میرا دوست دمڑی لال برنس روڈ پر گول گپے کھا رہے تھے۔ ریڑھی کے اطراف لوگوں کا ہجوم تھا۔ میں اور دمڑی لال گول گپوں کی تین پلیٹیں چٹ کرچکے تھے۔ گول گپوں کی چوتھی پلیٹ لینے کے لئے جب میں نے ریڑھی والے کی طرف ہاتھ بڑھایا تب دمڑی لال نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ میں نے پلٹ کر دمڑی لال کی طرف دیکھا۔ دمڑی لال وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ پُراسرار طور پر غائب ہوچکا تھا۔ عمر کے لحاظ سے میں نوے 90کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ دمڑی لال ایسے غائب ہوا کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ سنا ہے کہ ستائیسویں ، اٹھائیسویں ، انتیسویں آئینی ترمیموں کے بعد دمڑی لال جیسے لوگ غائب ہونا چھوڑ دیں گے۔ دمڑی لال جیسے لوگ پولیس مقابلوں میں مارے جائیں گے۔ دوسرے روز ان کے کالے کرتوتوں کے بارے میں بھرپور پریس کانفرنس میں انکشاف در انکشاف کئے جائیں گے۔
آئینی ترامیم بہت کچھ بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ آپ اپنی پھٹیچر موٹر سائیکل پر مزے سے جھومتے ہوئے ون وے روڈ پر چلے جارہے ہوں گے۔ اچانک آپ کی نگاہ سامنے سے آتی ہوئی تیز رفتار پجیرو پر پڑتی ہے۔ آپ کو گھبرانے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ پجیرو آپ کو کچل کر آگے نکل جاتی ہے۔ آپ اسی جگہ فی الفور شہید ہو جاتے ہیں۔ بڑے صاحب کے ولی عہد کو عدالت نفسیاتی مریض بتاکرلاپروائی اور غلط سمت سے آنے اور موٹر سائیکل سوار کو شہید کرنے کےالزام سے بری کر دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک کیس میں پچھلی سیٹ پر براجمان ڈرائیور ایکسیڈنٹ کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے۔ عدالت ولی عہد کو الزام سے باعزت بری کر دیتی ہے۔ ستائیسویں ، اٹھائیسویں ، انتیسویں اور تیسویں آئینی ترامیم کی تکمیل کے بعد آپ ملک میں قدم قدم پر کرشمے دیکھیں گے۔
ہم فقیر بڑی ڈھیٹ قسم کی چیز ہوتے ہیں۔ لاکھ دھتکارنے کے بعد بھی ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ’’معاف کرو بابا۔‘‘ یہ ایک جملہ سنتے سنتے ہم بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ۔ ’’معاف کرنے والی اللہ سائیں کی ذات ہے۔ ہم فقیر کسی کو کیا معاف کریں گے۔ ‘‘
’’تو پھر ہماری جان چھوڑو۔‘‘
’’ہم مال و ملکیت نہیں چاہتے۔ آپ ہماری مجوزہ آئینی ترامیم کو شفقت کی نگاہ سے دیکھیں۔‘‘
بھیک مانگتے مانگتے پون صدی گزر گئی ہے،کسی کرتا دھرتا نے ہم فقیروں کی مجوزہ آئینی ترامیم پر شفقت کی نگاہ ڈالنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے۔ جس بات نے ہم فقیروں کو بائولا بنا دیا ہے وہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ ہم قلندروں کے ووٹ کے بل بوتے پر چوہدری، وڈیرے، خان، سردار اور سید صاحبان اسمبلی میں جاکر بیٹھتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ہم بااثر افراد کو ملازمت دیتے ہیں۔ سوچئے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بااثر لوگ ہمارے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلی کے ایوان تک پہنچ جاتے ہیں؟ ہم آئین میں بہت بڑی ترمیم دیکھنے کے متمنی نہیں ہیں۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جس طرح ووٹ دیکر ہم وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، سرداروں کو اسمبلی تک پہنچاتے ہیں، عین اسی طرح ہم انہیں Devoteکرنے کا آئینی حق مانگتے ہیں، ناقص کارکردگی کی بنا پر نالائق ایم این اے اور ایم پی ایز کو ہم اسمبلیوں سے اپنے ووٹ کے ذریعے فارغ بھی کرنے کاآئینی حق چاہتے ہیں۔ جس طرح ہم فقیروں کے ووٹ کے بغیر وہ لوگ اسمبلی میں جا نہیں سکتے ہیں، عین اسی طرح ہماری مرضی یعنی ہمارے ووٹ کے بغیر اسمبلی میں بیٹھ نہیں سکتے۔ بہت ستایا ہے ان لوگوں نے۔ ہمیں بہت تنگ کیا ہے ان لوگوں نے ۔پانچ برس میں ایک مرتبہ ہم سے ووٹ مانگنے آتے ہیں۔ اسکے بعد اپنی شکل تک نہیں دکھاتے۔اپنے حلقہ انتخاب میں رتی برابر کام نہیں کرتے۔ ایسے ممبران کیخلاف آئینی طور پر ہم Devote کرنے اور ان کی جگہ ہوشیار اور لائق ممبران چن کر لے آنے کا آئینی حق چاہتے ہیں۔ آئین میں ہم ایسی ترمیم چاہتے ہیں۔ ایک نالائق اور ناقص کلرک کو آپ دفتر میں قبول نہیں کرتے۔ ان کو ڈسمس کرکے نکال دیتے ہیں تو پھر قانون ساز اسمبلی میں قانون سے نابلد کو آپ کیسے قبول کرسکتے ہیں؟ ایسی آئینی تبدیلی کیلئے پچھلے 75برس سے ہم گزارش کرتےآئے ہیں اور آنے والے ایک سو 75برسوں تک گزارش کرتے رہیں گے۔