پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت میں چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقار احمد نے خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتِ حال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ عابد مجید اور ڈی آئی جی اختر عباس، ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ بتائیں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کہ معاملہ وفاق کے ساتھ اٹھایا ہے اور ابھی تک اس حوالے سے دو اجلاس ہوئے ہیں، ججز اور عدالتوں کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی ایس او پیز پر نظرِ ثانی بھی کی جا رہی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللّٰہ نے تجویز دی کہ ججز کی سیکیورٹی سے متعلق ایک کمیٹی بنائی جائے اور اس کمیٹی میں جوڈیشل افسران اور بار کونسل کے نمائندے شامل ہوں۔
چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ سیکیورٹی کی وجہ سے ہم نے 2 اضلاع میں عدالتی کام بند کیا ہے، پولیس نے دہشت گردی سے جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، 23 ہزار پولیس کے جوان شہید ہوئے، دنیا کی تاریخ میں پولیس نے اتنی قربانیاں نہیں دیں، پولیس کے یہ جوان بھی کسی کے بیٹے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کی فراہمی وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے، وفاقی حکومت خود کو صوبے کی سیکیورٹی سے مبرا نہ سمجھے، وفاق سیکیورٹی آلات کی فراہمی بھی یقینی بنائے۔
چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ وفاق اور صوبہ جب تک ایک پیج پر نہ ہوں سیکیورٹی بہتر نہیں ہو سکتی۔
اُنہوں نے صوبے کی سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 14 نومبر تک سماعت ملتوی کر دی۔