• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھا امریکا دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے ،اسی طرح امریکی انتخابات کے اثرات بھی بشمول دیگر عالمی طاقتوں کے پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھرمیںیہ انتخابات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔درویش کو بچپن سے امریکا میں اتنی دلچسپی رہی ہے کہ وہ تقریباً ہر انتخاب سے قبل جیتنے والے امیدوار کے متعلق رائے زنی کرتا چلا آرہا ہے مگر یہ پہلے الیکشن تھے جن کے متعلق چند روز قبل تک کوئی بھی پیش گوئی مشکل محسوس ہو رہی تھی ۔خود کو بالعموم ڈیموکریٹس کا حامی قرار دینے والا بھی بائیڈن کی کمزور پالیسیوں سے اتنا نالاں تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی شخصیت پر کئی کڑے اعتراضات کے باوجود اس کیلئے اپنائیت محسوس کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے کہ کاملہ ہیرس کو ضرور جیتنا چاہیے لیکن اس مرتبہ نہیں... وہ کیوں؟ اس لیے کہ عام امریکی انہیں جو بائیڈن کا تسلسل ہی خیال کرے گا جن سے وہ سخت نالاں ہے ‎پریزیڈنٹ ٹرمپ کومنہ پھٹ اور Unpredictable Person ہی سمجھا جاتا ہے۔ عجب باتونی و سر پھرا آدمی ہے من میں سودا سما جائے تو نارتھ کوریا بھی جا پدھارے اور بدترین ڈکٹیٹر کو اپنا فرینڈ قرار دینے لگے سعودی کنگڈم کے متعلق سفارتی آداب کا لحاظ رکھے بغیر ایسی زبان بول دے کہ مڈل ایسٹ میں سب حیرت زدہ رہ جائیں کسی کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ دوست کس کا ہے اور دشمن کس کا، لوگ کہتے ہیں کہ وہ غیر روایتی سیاستدان ہے مگر بارہا وہ یہ باور کرواتا ہے کہ کیا اس کے لیے سیاست دان کی ٹرم درست بھی ہے یا اسے مسخرہ کہا جانا زیادہ مناسب ہے، نامعلوم کہاں کس کی پگڑی اچھال دے‎ کیتھولک مسیحیت کے پوپ سے بھی مسخریاں شروع کر دے جس کے سامنے قانونی ضوابط کی بندش بھی کوئی خاص اہمیت نہ رکھتی ہو جس کے پیروکاران بھی شکست کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے ہمارے 9 مئی جیسے کرتوت کر ڈالیں۔ امریکی تاریخ میں جو سیاسی شائستگی یا تہذیبی اقدار ہمیشہ سے حاوی یا جاری چلی آرہی ہیں کھلنڈرے پن کا رول ادا کرتے ہوئے نامعلوم یہ انقلابی لیڈر کب ان سے بھی کھلواڑ کر ڈالے، اس سب کے باوجود آج نئے قومی ایجنڈے کے ساتھ وہ جو زبان بول رہا ہے کسی اور کو اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے عام امریکی ووٹرز بالخصوص 75 فیصد گوروں کو اس کی سمجھ ضرور آرہی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دیگر عام امریکیوں کو بھی، جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’فرسٹ امریکا‘‘ تو بات واضح ہوتی ہے کہ امریکی وسائل پر پہلا حق امریکیوں کا ہے، ہم امریکی اقوام دیگر کے لیے اپنی قوم سے کھلواڑ کیوں کریں؟ انہیں بے روزگار بناتے ہوئے ان پر مہنگائی کا بوجھ کیوں لادیں؟ افراط زر کا مسئلہ اگرچہ عالمی سطح پر پوری دنیا کو درپیش ہے اور‎امریکی اس دنیا سے باہر تو نہیں ہیں مگر جب وہ اس خرابی کی جڑ ریجنل کنفلِکٹس کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں میں امریکی سرمائے کا بے دریغ استعمال بیان کرتا ہے تو عام امریکیوں کو یہ بات بھلی محسوس ہوتی ہے جنگیں چاہے کتنی ہی ناگزیر کیوں نہ ہوں مگراکیسویں صدی کا پہلا ربع گزار کر بھی وہ کون ہے جو جنگوں کی وکالت کر سکے؟ ہر باشعور انسان کو امن کی باتیں بھلی لگتی ہے اور وہ جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے امریکیوں کو یہ بات کیوں پسند نہ آئے گی کہ ہم لوگ آخر کیوں اپنے 171 ارب ڈالر یوکرین کی جنگ میں جھونک دیں اور اتنے ہی اپنے یورپی اتحادیوں کے بھسم کروا دیں؟ اس لیے کہ ہمارا حریف روس اس میں پھنسا رہے یا اس کے وسائل اس میں ضائع ہو جائیں مگر کس قیمت پر؟ شریک کی آنکھیں پھوڑنے کے لیے اپنی آنکھوں کو نقصان کیوں پہنچایا جائے؟ یوکرین کی قومی یا علاقائی خود مختاری ،جو بھی ہے ابھی کل کی بات ہے جب یہ سوویت یونین کا حصہ تھا،وہ کلی طور پر برداشت تھا تو اب یہ جزوی طور پر بھی کیوں ناقابل برداشت ہے؟ مگر اس اپروچ سےامریکا کا عالمی امیج اس قدر متاثر ہوگا یہ ایک الگ Debatable issue ہے‎۔ (جاری ہے)

تازہ ترین