• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بہت برسوں بعد ایک خوشی کا منظر دکھائی دیا ہے۔ ٹی وی پر دیکھا کہ غزہ کے میڈیکل کے بچے، پاکستان کالج میں داخلے کیلئے کھڑے ہیں۔ پرنسپل ہر لڑکے لڑکی کو ڈاکٹراُورآل(کوٹ) پہنا رہے ہیں اورنوجوان مرحبا، مرحبا کہتے ہوئے پاکستانی زیرتعلیم ڈاکٹروں سے ہاتھ ملاتے ہوئے، سب ہنس رہے ہیں۔ پورے غزہ، بیروت اور لبنان میں پچھلے ایک سال سے ماتم گزار ہاتھوں میں لاشے اٹھائے، عورت، مرد نظر آرہے تھے۔ شاید یہ مبارک گھڑی، شہباز شریف کے نیکیوں کےپلڑے میں لکھی اور یاد رکھی جائیگی۔

سردیاں شروع ہوتے ہی دونوں طرف کے پنجاب میں اسموگ اکتوبر کے وسط سے فضا کو آلودہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ سبب یہ کہ دونوں جانب فصلوں کی باقیات، کاشتکار خود جلاتے ہیں۔ یہ منظر ہم لوگ جوانی میں ایسے دیکھتے تھے کہ نئے سال کی پہلی رات ،ہم سب دوست اکٹھے ہوتے تھے۔ مگر ایک دوسرے کے گھر پہنچنے کے لئے یہ تک نظر نہیں آتا تھاکہ ہم سڑک کے درمیان چل رہے ہیں کہ کسی دوسری سڑک پر پہنچ گئے ہیں۔ یہی حال انڈیا میں دیوالی کے موقع پر اسی گردو غبار میں اس قدر شامل ہوتا ہے کہ تیل اور گندھک سب کے گلے بند کرنے کو حملہ آور ہوتی ہے۔ انڈیا میں تو کیا پاکستان میں بھی کسان ان باقیات کو جلانے کا یہ فائدہ سمجھتے ہیں کہ زمین میں یہ راکھ نئی فصل کیلئے بنیاد بنتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ مریم بی بی اس اسموگ سے پریشان ہو کر بلاتکلف دونوں پنجاب کے اداروں کو آپس میں بات کرنے کیلئے پہل کر رہی ہیں۔ مودی صاحب کی اکڑ کبھی اور کہیں ختم نہیں ہوگی۔ اس لئے شاید بی بی کی کوشش کامیاب نہ ہو۔ بی بی کی یہ معقول سوچ ہے اور عملی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کومثبت طریقے پر بہتر بنانےکیلئے باہم مذاکرات کچھ اچھے نتائج لاسکتےہیں۔ میں نے اس اسموگ کے زمانے میں لاہور سے پورے مشرقی پنجاب کے کئی دورے کیے ہیں کہ یہی زمانہ ہوتا ہے جب ساری یونیورسٹیوں میںسالانہ کھیل، بین الاقوامی کانفرنسز، کتابوں کے میلے اور نئے داخلوں کے ہنگامے ہوتے ہیں۔ ہماری جوانی کے زمانے میں تو یاد ہے کئی کئی مہینے تک دھوپ کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا مگر لوگ بیمار بھی ہوتے، شادیوں اور تہواروں کو اس اسموگ کیساتھ ہنستے گاتے ساری تقریبات ہوتی تھیں۔ اسموگ ختم کرنے میں مگر باربی کیو کو ختم کرنے یا کم کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ سائنسی سطح پر دونوں ملکوں میں صحت کے اقدامات اور تجارتی اور سیاحتی رشتوں کو مضبوط کرنے کیلئے خوش آئند ہوگا ۔ دونوں حکومتیں تجارتی روابط کو با قاعدہ جاری کرنے کیلئے لیت و لعل کر رہی ہیںجبکہ اخباری خبروں کے مطابق اس سال انڈیا سے اسمگلنگ تین گنا زیادہ ہوئی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی کیا، کسی طرح کے بھی مفاہتی رشتے نہیں ہیں۔ اب تو جرگوں نے فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ افغانی اور پختون تجارتی گروپوں نے باہمی اور باضابطہ تجارت شروع کردی ہے، اس طرح کی تجارت پارہ چنار کے لوگ بھی چاہتے ہیں مگر 75دن سے وہ بارڈر سیل ہیں۔ ادھر بلوچستان میں ایرانی تیل کی مارکیٹ اور کھپت، میں خود کیچ اور تربت کے سارے علاقوں میں آٹے، تیل سے لیکر نمکو تک اور مشروم گزشتہ چالیس سال سےباقاعدگی سے کھاتی رہی ہوں۔ہم سب کو یہ بے ایمانیاں معلوم ہیں۔ بنگلہ دیش سے حسینہ واجد کی حکومت میںتجارتی پابندیاں تھیں۔ البتہ جو جہاز ڈھاکہ سے ہوتا ہوا آتا تھا اسکے سامان میں کتھا اور چھالیہ پیکٹ سے نکل کر سامان کے درمیان ٹہلتی دکھائی دیتی۔اسمگلنگ کی حد تو یہاں ختم ہوتی ہے کہ حج اور عمرے پر جانے والے مسافروں کے کپڑوں، جوتوں اور مونگ پھلیوں میں آئس ڈرگز پکڑی جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ٹرکوں کے ذریعہ سامان کے اندر کبھی کئی کلو، کبھی کئی من منشیات کونوں کھدروں میں چھپائی، پکڑ ی اور چھوڑی بھی جاتی ہیں۔ اب تو پی آئی اے بھی ختم ہو رہی ہے ورنہ سارے کاسمیٹک اسٹور، ہوٹلوں کے بار، ان سارے پائلٹوں اور ایئر ہوسٹیسز کی مہربانی سے چلتے تھے۔

پی آئی اے کو خریدنے کیلئے کوئی مضبوط گاہک تو نہیں۔ البتہ پاکستان کے صوبے، جنکی استانیوں کو 8 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے۔ یوکرین سے خراب گندم منگائی جاتی ہے ۔ وہ حوصلہ کر رہے ہیں کہ ’’باکمال لوگ اور لاجواب پرواز‘‘ کہنے والوں کو شتر مرغ کا انڈا سمجھ کر دبو چ لیں۔ اب تو پاکستانیو بولو کہ پاکستان جو قرضوں پر چل رہا ہےاسکے اندر کیسے کیسے قارون کےخزانوںوالے ہیں کہ جن کے خادم انکی ڈھیر ساری چابیاں پکڑ کر آج بھی چلتے ہیں۔

آپ کو یاد کرائوں انڈیا میں سب سے پہلا تجارتی ٹولہ پرتگالیوں کا حملہ آور ہوا، یکے بعد دیگرے بہت سے تجارتی ساحل بنے اور سب سے آخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ڈیڑھ سو سال حکومت کی اور جاتے وقت تک، انڈیا کے خزائن خالی کرنے میں سب سے اول رہے۔ آج ہم سعودی عرب کی گود میں لالی پاپ کھانے، ان کی طرز میں دف بجانے اور اور جگہ جگہ زمینیں، فوج کے علاوہ ان کی آغوش میں دیکر، کبھی پلٹ کر یہ نہیں سوچتے کہ برصغیر کی تہذیب کو ایک طرف مودی سرکار اور دوسری طرف عرب تہذیب، کیسے متاثر کریںگے۔

تازہ ترین