ٹیکسوں کے کمزور نظام ،اس میں پائی جانے والی خامیوں اور اس کی مشینری کی کوتاہیوں اور ٹیکس نادہندگان نے معیشت کو مسلسل حالت نزاع میں مبتلا کررکھا ہے۔معیشت پر 87ہزار ارب روپے سے متجاوز ہوتا ہوا بیرونی قرضوں کا بوجھ اسی کا شاخسانہ ہے،جس سے چھٹکارا پائے بغیر معاشی اصلاحات کاتصور ایک خواب ہی ثابت ہوسکتا ہے۔ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میںاربوں روپے کے ٹیکس مقدمات محض التوا میں پڑے ہیںجو،منفی رجحانات کی حوصلہ افزائی اور ان کی تعدادمیں مزید اضافے کاموجب بن رہے ہیں۔حالات میں سدھار لانے والے ایماندار افسران کی معاشرے میں کمی نہیں، تاہم اسے بدقسمتی کہئے کہ معیشت کو نقصان پہنچانےوالے عناصر انھیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ان کی بدعنوانی نے ملکی معیشت کے مدمقابل غیرقانونی نظام قائم کررکھا ہے ،جس کا حجم وفاقی بجٹ سے زیادہ ہونے میںشایدشک وشبہ کی بھی گنجائش نہیں۔اس میں اسمگلنگ ایسا عنصر ہے جس کی لغت میں ٹیکس نام کا کوئی لفظ نہیں۔8ماہ قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے انکشاف کیا تھا کہ ملک کی مختلف عدالتوں نے 2ہزارارب روپے سے زائد ٹیکسوں کے مقدمات پر حکم امتناع دے رکھا ہے۔اگرعدلیہ اور حکومتی کوششوں سے یہ خطیر رقم واگزار ہوجاتی ہے تواس سے ذمہ داری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو کچھ ریلیف مل سکتا اور مہنگائی میں حقیقی کمی آسکتی ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیس نمٹانے سے متعلق اہم اجلاس کے موقع پر 97ارب روپے کے 3496ٹیکس مقدمات زیرالتوا ہونے پر تشویش ظاہر کی ہےجنھیں نمٹانے کیلئے ایف بی آر حکام اور معاشی ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔متذکرہ کمیٹی متعلقہ امور کو دیکھتے ہوئے اس کی روشنی میں تجاویز مرتب کرے گی۔ملک کی دگرگوں معاشی بدحالی کا ادراک کرتے ہوئے موجودہ حکومت اصلاحات کا جو ایجنڈا لے کر آئی ہے ،اس میںسر فہرست ٹیکسوں کے بگڑے ہوئے ملک گیر نظام کی اصلاح کرنا ہے۔اس کی شروعات نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائے جانے کی کوششوں سے ہوئی ہے۔یاد رہے کہ محمد شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)میں اصلاحات لانے کے احکامات جاری کیےتھے۔اس عمل کی وہ خود نگرانی کررہے ہیں۔انھوں نے سابق چیف جسٹس سےٹیکس ٹربیونلز میں پڑے سیکڑوں ارب روپے کےمقدمات جلد نمٹائے جانے کی درخواست کی تھی،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کاصورتحال کانوٹس لینا اپنے منصب کی پاسداری کی ایک روشن مثال ہے،جسےمتعلقہ حلقوں کے تعاون سےمثبت انجام کو پہنچایاجانا ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایف بی آر سمیت معیشت کے دیگر شعبوں میںاصلاحات لائے جانے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچانا ایک ان ہونی بات نہیں تو چیلنج ضرور ہے۔97ارب روپے کی ریکوری کے بعداس کامیاب تجربے کی روشنی میںدو ہزار ارب روپے کے وہ کیس جو ملک کی دیگر عدالتوں میں التوا میںپڑے ہیں،ان کا معمہ حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا اقدام نہایت صائب اور وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ،تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس کا سو فیصد کامیابی سے ہمکنار ہونا ضروری ہے اور اس کی روشنی میں عین ممکن ہے کہ آئندہ التوا برائے التوا کے مقدمات کی حوصلہ شکنی ہو ۔حکومت کیلئے لازم ہے کہ ایف بی آر کا تمام تر نظام اور ریکارڈ بلاتاخیر مکمل طور پر کمپیوٹرائز کیا جائےاور قانون میں پائی جانے والی وہ تمام کمزوریاں پارلیمانی ترامیم کے ذریعے دور کی جائیں،جو گزرتے وقت کی ضرورت ہے اور اس کا فائدہ صرف اور صرف قومی معیشت کو پہنچے۔