غرض نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرنے کو ہے؟ یقین کامل، ٹرمپ نے امریکہ کو انواع واقسام کے اندرونی و بیرونی خلفشار سے متعارف کرانا ہے۔ یوکرین کی جنگ ختم ہوئی بھی تو فلسطین، لبنان، ایران کیخلاف نیتن یاہو کے ہاتھ مضبوط ہونگے، کوئی کسر باقی رہی تو چین کیخلاف اقتصادی جنگ کا آغاز کرکے، دونوں کمزور اور دُنیا گھمبیر اقتصادی بحران میں، روس، ساؤتھ کوریا، ساؤتھ چائنا سمندر، نارتھ کوریا وغیرہ بارے ٹرمپ پالیسیاں امریکی نظام کو ہکا بکا رکھنے کیلئے روبہ عمل رہنی ہیں۔ رابرٹ ( باب ) وُڈ وَرڈ امریکہ کا انعام یافتہ جید صحافی، 60 سال سے تمام امریکی صدور اور وائٹ ہاؤس کے سیاسی اسکینڈل، منفی مثبت پہلو پر درجنوں کتابیں، ہزاروں مضامین لکھ چکا ہے۔ صدر نکسن کا مشہور زمانہ ’’واٹر گیٹ اسکینڈل‘‘، اُنکے کار ہائے نمایاں میں سے ایک ہے۔ الیکشن سے 6 ہفتے پہلے شائع ہونیوالی کتاب FEAR: Trump in the White House" " صدر ٹرمپ کے پہلے دور کے مضحکہ خیز معمولات و واقعات کی چشم کُشا اور ہوش رُبا تصویر کشی کی ہے۔ بقول وڈورڈ ٹرمپ کے سابقہ وزیروں، مشیر وں کی متفقہ رائے کہ ’’ٹرمپ علم، عرفان اور غور و فکر سے عاری، بغیر سوچ سمجھ کے اضطراری مزاج، ذہنی و اعصابی ہیجان سے بھرپور ایک ناقابل بھروسہ صدر تھا، ٹرمپ کا صدارتی عہدےپر رہنا اتنا خطرناک ہو چکا تھا کہ کچھ نے تو امریکی آرمی چیف سے فوری مداخلت کی درخواست کر ڈالی‘‘۔
سابقہ معتمدین کا مزید کہنا کہ’’ OVAL (صدر) آفس، سچویشن روم اور وائٹ ہاؤس میں وزیروں مشیروں سے ٹرمپ کی مستقل چخ چخ، باہمی جھگڑے معمول تھا۔ دورانِ صدارت حالات سنگین اور ناقابل بیان، اس وقت وائٹ ہاؤس کا نظام عملاً تتر بتر ہو چکا تھا‘‘۔ سابق چیف آف اسٹاف جان کیلی نے بتایا، ’’ٹرمپ ایک احمق اور پراگندہ شخص تھا۔ اُسے قائل کرنا یا بات سمجھانا ایسے ہی تھا جیسے کہ بھینس کے آگے بین بجانا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم اسکی کابینہ کا حصہ اتنا عرصہ کیوں تھے؟ یہ میری زندگی کا ایک ڈراؤنا خواب تھا‘‘۔ بقول وزیر دفاع جیمز میٹس ’’ٹرمپ کی عقل و سمجھ بوجھ پانچویں جماعت کے طالب علم سے بھی کم تھی‘‘۔ ٹرمپ کے ذاتی قانونی مشیر جان ڈوڈ نے ٹرمپ کو ’’پراگندہ اور بدترین جھوٹا بتلایا‘‘۔ ٹرمپ نفسیاتی ہیجان کا شکار ، نفسیاتی بیماری کی حد تک خبط عظمت میں مبتلا، غصے میں آپے سے باہر، فحش گفتگو وحرکات و سکنات کا عادت، اپنی ذات سے عشق، مبالغہ آمیز خوش فہمی، میڈیا اور خبروں میں رہنے کا جنون، اپنی مقبولیت بارے ناقابل فراموش تصور، یہ چار عناصر تھے تو بنتا تھا ٹرمپ۔ قریبی ساتھیوں کی تضحیک اور انکو القابات دینا خصلت تھی۔ طنز و تحقیر میں قریبی ساتھی دوست سینیٹر لِنڈسےسے گراہمتک کو نہ بخشا۔
2016الیکشن سے پہلے جیو پروگرام میں میری رائے لی گئی تو عرض کیا کہ ’’ہلیری جیتی تو امریکہ کا ستیاناس اور اگر ٹرمپ جیتا توسوا ستیاناس‘‘ رہنا ہے۔ اس دفعہ کملا کے مقابلے میں ٹرمپ نے ’’سوا ستیاناس‘‘ کرنا ہے۔ یقین کامل! ’’امریکہ کو آگ لگنی ہے امریکی چراغ سے‘‘، ٹرمپ اور امریکی نظام کئی ایشوز پر بہت جلدآپس میں ٹکرائیں گے۔ پاکستان بارے امریکہ کا رویہ ہمیشہ سازشی اور مفاداتی رہا۔ کیسے بھولیں، صدر ٹرمپ نے آتے ہی پاکستان پر بلاوجہ پابندیاں لگائیں، جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کی۔ جنرل باجوہ نے جوڑ توڑ سے 22جولائی 2019میں عمران خان کا وائٹ ہاؤس دورہ رکھوایا، بھوت پریت سیلفی کہانیاں ضرور عام ہوئیں، عملاً ملاقات پاکستان کیلئے صف ماتم کہ دو ہفتوں بعد 5اگست کو بھارت کشمیر ہڑپ کر گیا۔ مت بھولیں کہ سب کچھ ٹرمپ کی کشمیر ثالثی کا نتیجہ تھا۔ دورے پر ٹرمپ عمران مشترکہ پریس کانفرنس، عملاً ٹرمپ شو تھا۔ آغاز، ٹرمپ نے اپنی تعریف و توصیف کے پُل باندھے، اپنے اڑھائی سالہ دور کو امریکی تاریخ کا سنہرا باب بتایا۔ عمران خان کو ساتھ بٹھا کر ڈیموکریٹس اور سابق صدر اوباما پر طنز و تحقیر کے نشتر چلائے۔ شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی کے سوال پر وزیر اعظم پاکستان کو اُسکی اوقات میں رکھا بلکہ اوقات یاد دلا دی۔ امریکی دورے کی جمع تفریق عملاً جنرل باجوہ کی امیج بلڈنگ اورمدت ملازمت میں پہلی توسیع مستحکم کرنا تھا۔ جنرل باجوہ مزید ایک ہفتہ امریکہ رُکا، پینٹاگون میں 21توپوں کی سلامی لی جبکہ عمران خان محروم رہا۔ٹرمپ عمران خان ملاقات بہانا، اصل مدعا کشمیر ہتھیانا تھا۔ کشمیر قبضہ کے فوراً بعد مودی امریکہ پہنچا تو اُسکا غیرمعمولی استقبال تھا۔ امریکہ بھارت تزویراتی شراکت دار ہیں، بعینہ جیسے پاکستان اور چین دفاعی مفادات میں جڑے ہیں۔ دورہ کا ٹائٹل " HOWDY مودی" کہلایا، مشترکہ جلسے منعقد کیے، پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی ہوئی۔ چند ماہ بعد ٹرمپ نے جوابی یادگار دورہ ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کے عنوان سے کیا۔ امریکہ اور بھارت نے وسیع و عریض درجنوں تزویراتی اور دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں۔ ٹرمپ نے آنیوالے دنوں میں بھارت اور اسرائیل کو پہلی ترجیح بنانا ہے۔ دونوں ممالک کو مزید طاقتور بنانا، صدر پیوٹن سے تعلقات بحال کرنا، چین کیخلاف اقتصادی جنگ پر توجہ رکھنا، ٹرمپ کو مصروف رکھنا ہے۔
ہمارے قومی ہیرو کی اُمید ٹرمپ جیت سے منسلک تھی۔ اب جبکہ ٹرمپ جیت چکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف اور تضادات ساتھ ساتھ عملاً متحرک ہیں۔ جہاں ٹرمپ کوفتح کرنے کیلئے PTI قیادت کی امریکہ پر یلغار وہاں ’’ٹرمپ ہمارا بڑا بھائی لگتا ہے‘‘، دونوں میں سے جو بیانیہ وارے میں، عمران خان نے آخر میں مضبوطی سے تھام لینا ہے۔ ’’پہلے ٹرمپ عمران خان کو رہا کروائے گا پھر عمران خان پاکستان کو امریکہ سے آزادی دلوائے گا‘‘۔ ٹرمپ کی جیت کیلئے PTI نے لاکھوں نوافل اورمنتیں مان رکھیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ’’فوج اندر بغاوت سے عمران خان کا مستقبل وابستہ تھا‘‘، منہ کی کھانا پڑی۔ پھر ’’عدلیہ سے اُمیدیں باندھ لیں‘‘۔25 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے حلف اُٹھاتے ہی خود ساختہ فارم 45پر اِدھر 70مزید نشستیں حوالے، اُدھر عمران خان جیل سے باہر، سیدھے وزیر اعظم ہاؤس۔ بُرا ہو 26ویں آئینی ترمیم کا، اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بالفرض محال ٹرمپ تفریح طبع کیلئے عمران خان کی رہائی کیلئے فون کال کر بھی دے تو صدابہ صحراکہ GHQ میں ردی کی ٹوکری ہمیشہ منتظر ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ الیکشن جیت چکا ہے، عمران خان رہائی کی ساری اُمید صدر ٹرمپ کی کال سے جُڑی، ’’نااُمیدی اسکی دیکھا چاہئے‘‘۔