میرا جی کو گھر یاد آتا تھا اور مجھے ماں یاد آتی ہے۔ میرے بچپن میں جاڑا بہت کڑاکے کا پڑتا تھا۔ ماں نرم روئی کا لحاف مجھ پر ڈال کر سر پر اونی ٹوپی اوڑھا دیتیں۔ اور پھر روئی کے ڈھیر میں چھپے اس ’گولو شاہ‘ کو مزے مزے کی کہانیاں سناتیں۔ میری پسندیدہ کہانی ایک غریب موچی کے بارے میں تھی جس کے تیار کئے ہوئے ادھورے جوتے کوئی رات کے اندھیرے میں مکمل کر دیتا تھا۔ ایسی نفاست سے بنائے جوتے ہاتھوں ہاتھ بک جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کی غربت دور ہونے لگی۔ اسے تجسس تھا کہ کون یوں رازداری سے اس کی مدد کر رہا ہے۔ ایک روز موچی اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ دروازے کی اوٹ سے دیکھیں گے کہ کون ان کے جوتے بنا رہا ہے۔ رات گہری ہوئی تو موچی کی کارگاہ میں چراغ اچانک روشن ہو گیا۔ کھڑکی کے راستے پھٹے پرانے کپڑے پہنے چھ بونے اندر داخل ہوئے اور بڑ ی مہارت سے کام کرنے لگے۔ رات بھر میں انہوں نے وہ تمام جوتے مکمل کر دیے جن کا چمڑا موچی نے پہلے سے کاٹ رکھا تھا۔ دن کی روشنی نمودار ہونے سے پہلے بالشتیے خاموشی سے اسی کھڑکی کے راستے باہر نکل گئے۔ موچی اور اس کی بیوی دانتوں میں انگلیاں دبائے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کے دل تشکر سے بھرے تھے۔ موچی کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمارے محسن بالشتیوں کے کپڑے کیسے خراب اور خستہ ہو رہے تھے۔ یقیناً انہیں سردی لگتی ہو گی۔ کیوں نہ ہم ان کے لیے اچھے سے کپڑے میز پر رکھ دیں۔ دونوں نے دیکھا کہ بالشتیوں نے میز پر رکھے کپڑے اٹھا کر پہنے اور حسب معمول خوشی خوشی اپنا کام کرتے رہے۔ کہانی یوں ختم ہوتی تھی کہ پھر وہ بالشتیے کبھی واپس نہیں لوٹے۔ موچی اور چھ بونوں کی یہ صدیوں پرانی کہانی نسل در نسل بچے سنتے آئے ہیں۔ اس کہانی کا بنیادی سبق ہمدرد ی اور احسان مندی تھا۔ کہانیوں کی دنیا عجیب ہوتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ’نشیب‘ کے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ’ کہانیوں میں وہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں‘۔ اب یہی دیکھئے کہ ڈنمارک کے ہانس کرسچین اینڈرنسن نے بادشاہ سلامت کے ’لباس فاخرہ‘ کی جو کہانی لکھی وہ اقتدار کی رعونت اور تنہائی سے فائدہ اٹھانے والے درباریوں کا لالچ بیان کرتی تھی۔ سچ بولنے والا ننھا بچہ تو کنارے پر کھڑے بے چہرہ ہجوم کا حصہ تھا۔ اس معصوم کو کیا خبر کہ بادشاہوں کا ننگ بیان نہیں کیا جاتا۔ ان کی تعریف و توصیف سے اپنے کام و دہن کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بادشاہ کو ایک روز رخصت ہونا ہوتا ہے۔ تخت خالی نہیں رہا کرتے اور دل لبھانے والی باتوں کا ٹوکرا بھی کبھی خالی نہیں ہوتا، اگلے تخت نشین کے کام آتا ہے۔
ہمارے ملک میں اکتوبر 1958ء میں نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والا ایوب خان تخت نشین ہوا تو ’جنگ‘ کے اسی ادارتی صفحے پر رئیس امروہوی نے یکم جنوری 1959ء کو ایک شاندار کالم لکھا جس میں گزشتہ حکمرانوں کی خرابیاں بیان کر کے چڑھتے سورج کی کرنیں شمار کی تھیں۔ درویش کی کتابوں میں کہیں وہ چھوٹا سا کتابچہ بھی رکھا ہے جس میں مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، ممتاز مفتی اور ابن انشا نے ’بنیادی جمہوریت‘ کی خوبیاں بیان کی تھیں۔ کچھ رازدانوں کا خیال ہے کہ مولوی عبدالحق کے نام سے مضمون لکھ کر ان سے دستخط کروا لیے گئے تھے۔ الطاف گوہر نے ایوب خان کے نام پیر علی محمد راشدی کا خط بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔ فلپائن میں پاکستان کے سفیر راشدی صاحب نے ایوب خان کو تجویز دی تھی کہ پاکستان کو ان سے بہتر بادشاہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ ایوب خان دستور اور انتخاب وغیرہ کے جھمیلے میں پڑنے کی بجائے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیں۔ رازداں حلقے روایت کرتے ہیں کہ کسی ’کم فہم‘ وزیر نے اس خط کو لغو قرار دیا تو ایوب خان نے ناخوش ہو کر فرمایا کہ’ راشدی صاحب کی بات وزن سے کچھ ایسی بھی خالی نہیں‘۔ یہ کہانی الطاف گوہر کے تجویز کردہ’ جشن عشرہ ترقی ‘پر ختم ہوئی کیونکہ اس دوران یحییٰ خان اپنی ترقی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اگلے روز نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے کوثر نیازی صاحب کے بارے میں کچھ دریافت کیا۔ میں اسے پی آئی ڈی کے قصے کیا سناتا، صرف یہ بتایا کہ کوثر نیازی نے اکتوبر 1977ء ہی میں پیپلز پارٹی سے راہیں الگ کر لی تھیں۔ ضیاالحق سریر آرائے تخت ہوئے تو چند ’خوش نااندیش‘ سیاسی کارکنوں کو چھوڑ کر باقی قوم اسلامی نظام اور نظریہ پاکستان کے گن گانے لگی۔ بریگیڈیئر ایف آر خاں نے تو ’قومی تعمیر نو ‘کے نام پر لاہور میں ایک ہال تعمیر کیا تھا، لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن نے ہر اہم اخبار کے دفتر میں ایک فورم کھڑا کر دیا جہاں آئے روز افغان جہاد کے حق میں تقاریر کی جاتی تھیں۔ خدا کے فضل سے ان اجتماعات کے خوش بیان مقررین میں سے متعدد زعما ابھی ہمارے درمیان رونق دے رہے ہیں۔ موجودہ صدی کے ابتدائی برسوں میں طالبان نے اہل پاکستان کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کی اور عوام کو دہشت گردی کے بارے میں آگہی دینے کی ضرورت تھی تو میں انتظار ہی کرتا رہا کہ کوئی صحافتی ادارہ گزشتہ روایت کے مطابق کوئی سیمینار منعقد کرے۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ ایک بڑے صاحب کو شمالی وزیرستان میں قدم رکھنے سے گریز تھا تو دوسرے بڑے صاحب نے ہمت کر کے قبائلی منطقے کو طالبان سے آزاد کرا لیا۔ ہمیں تو خبر ہی نہیں ہوئی کہ یہ فیصلہ کب اور کس نے کیا کہ آٹھ ہزار مفرور دہشت گرد اپنے خاندانوں سمیت واپس پاکستان میں لائے جائیں اور پاکستانی جیلوں میں قید کوئی ایک سو دہشت گرد رہا کر دیے جائیں۔ اب ہمارے مہربان دوست بجا طو ر پر نئے بندوبست میں بادشاہ سلامت کو سکیورٹی، ملکی استحکام اور معیشت کی ذمہ داریاں سمجھا رہے ہیں۔ قدرتِ حق سے کیا بعید ہے کہ ان کے خوابوں میں رنگ بھر دے۔ مجھے تو صرف یہ یاد ہے کہ رات کے اندھیرے میں غریب موچی کے جوتے بنانے والے مہربان بالشتیے راز کھلنے کے بعد کبھی واپس نہیں لوٹے۔