مخول کرنے والے اس قدر سنجیدگی ،متانت اور معصومیت کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بھلے چنگے عقل مند لوگ بھی پہچان نہیں پاتے اور ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔1998ء میں جب ٹونی بلیئر برطانیہ کے وزیراعظم تھے تو ایک مسخرے نے انہیں اپوزیشن لیڈر ولیم ہیگ بن کر فون کیا اور 10ڈائوننگ اسٹریٹ کا اسٹاف تو کیابرطانوی وزیراعظم خود بھی نہیں سمجھ پائے کہ کوئی ’’پھرکی‘‘ لے رہا ہے۔کیوبا کے رہنما آنجہانی فیڈل کاسترو 2004ء میں صدر مملکت تھے تو کسی کامیڈین نے وینزویلا کا صدر ہیوگوشاویز بن کر ٹیلی فون کیا ۔لب و لہجے میں اس قدر پختگی تھی کہ مسلسل پانچ منٹ گپ شپ لگانے کے باوجود فیڈل کاسترو کو یہ احساس نہیں ہوا کہ کوئی فنکار انہیں بیوقوف بنا رہا ہے۔2008ء میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم عروج پر تھی اور الاسکا کی گورنر سارہ پیلن شہ سرخیوں میں تھیں تو ایک دن ان کے اسٹاف سے ٹیلی فون پر کہا گیا کہ فرانسیسی وزیراعظم نکولس سرکوزی بات کرنا چاہ رہے ہیں۔سارہ پیلن نے نہایت گرمجوشی سے بات کی۔نکولس سرکوزی نے کہا ،تم ایک دن ضرور امریکی صدر بنوگی۔پیلن نے ہنستے ہوئے جواب دیا،ہاںمگر شاید 8سال بعد۔سرکوزی نے کہا ،مجھے شکار پسند ہے اور الاسکا کی 44سالہ گورنر۔ایک دن اکھٹے شکار کھیلیں گے اور مزہ کریں گے۔پیلن نے شرماتے ہوئے کہا،آپ کی بیوی کارلا برونی بہت خوبصورت ہے ۔سرکوزی نے شرارت بھرے لہجے میں کہا ،اور بہت ہاٹ بھی ہے۔سات منٹ تک دل پشوری کے بعد کال کرنے والے نے بتایا کہ یہ پرینک کال ہے اور وہ نکولس سرکوزی نہیں بلکہ کینیڈین کامیڈین مارک اینٹونی ہیں۔ستمبر 2012ء میں ایک امریکی نقال نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کو ٹیلی فون کیا اور وہ اس مغالطے میں رہے کہ کینیڈین وزیراعظم اسٹیفن ہارپر ان سے مخاطب ہیں۔فون کرنے والے نے بانکی مون کی خدمات کو سراہا اور معذرت کی کہ بے پناہ مصروفیت کے باعث وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔26جنوری 2015ء کو ایک فنکار نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا ـ’’چیزہ‘‘(پنجابی زبان کا لفظ جس کا مطلب مزہ لینا ہے مگر ترجمہ کرنے سے مزہ کرکرہ ہوجاتا ہے)لیا۔اس مخولیئے نے برطانوی خفیہ ادارے کے سربراہ رابرٹ ہانی گن کی حیثیت سے رابطہ کیا اور سکیورٹی سے متعلق معاملات پر وزیراعظم سے تبادلہ خیال کیا۔21جنوری 2016کو اسپین کے وزیراعظم ماریانو راجوئے کو ایک ڈی جے نے ٹیلی فون کیا اور علیحدگی پسند رہنما کے طور پر اپنا تعارف کروایا ۔بات چیت کے دوران دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہئے۔ملاقات کی بات پر وزیراعظم ماریانو نے کہا کہ وہ جب چاہیں اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ،یہاں تک کہ چوبیس گھنٹوں کے نوٹس پر بھی ملاقات کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو پرینک کال تھی۔
یوں تو ہمارے ہاں باصلاحیت فنکاروں کی کوئی کمی نہیں مگر میرے دوست سید شفاعت علی کا جواب نہیں۔وہ بعض اوقات شرارت کے موڈ میں ہو تو الطاف حسین ،عمران خان ،شیخ رشید یا بلاول بن کر ٹیلی فون کرتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے واقعی ان شخصیات سے بات ہو رہی ہے۔یکم دسمبر2016ء کو وزیراعظم نواز شریف کی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔جب گفتگو کے مندرجات سامنے آئے تو مجھے لگاشاید شفاعت نے ڈونلڈ ٹرمپ بن کر نواز شریف کی ’’پھرکی‘‘ لینے کی کوشش کی ہے۔کیونکہ ٹرمپ نے نواز شریف کو عظیم ترین انسان قرار دیتے ہوئے کہاکہ آپ زبردست ساکھ کے حامل ہیں اور بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کے اثرات ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔بات یہیں تک رہتی تو ہضم ہو سکتی تھی مگر ٹرمپ نے کہا ،آپ سے بات کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارا برسوں کا یارانہ ہے۔ جب وزیراعظم نوازشریف نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی تو نہ صرف انہوں نے جھٹ سے قبول کر لی بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ کا ملک بہت شاندار ہے اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ بائے کہنے سے پہلے ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ آپ 20جنوری کو میری حلف برداری سے پہلے جب چاہیں ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔اور پھر ٹرمپ نے نوازشریف کو ’’Terrific Guy‘‘ کہہ دیا۔میں نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری محی الدین احمد وانی سے رابطہ کیا او ر پھر انفارمیشن گروپ کے افسر شفقت جلیل سے بات کی۔محی الدین وانی آج کل اسلام آباد میں سیکریٹری ایجوکیشن ہیں جبکہ شفقت جلیل جو بعد ازاں پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور سیکریٹری انفارمیشن رہے ،وہ غالباً ریٹائر ہوچکے ہیں۔ان دونوں اصحاب نے تصدیق کی کہ کال اصلی تھی۔
مجھے زیادہ حیرت اس لئے ہوئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلا اور ایک موقع پر یہ بھی کہا تھاکہ پاکستان ہمارا دوست نہیں اور اس سے جس قدر جلد ممکن ہو جان چھڑا لینی چاہئے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ بعدازاں جب جوبائیڈن امریکی صدر بنے تو پاکستانی وزیراعظم عمران خان ان کی کال کو ترس گئے ۔اب جب ٹرمپ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں تو انہوں نے جن ممالک کے سربراہان سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ان میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو،فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں ،یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی ،جنوبی کوریا کے صدر Yoon Suk Yeaol،کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو،جاپان کے وزیراعظم Shigrell Ishiba، برطانوی وزیراعظم Keir Starmer،اطالوی وزیراعظم Giorgia Meoni،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان شامل ہیں۔دیکھنا یہ ہوگا کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی سربراہ حکومت سے کب کلام کرنا مناسب سمجھتے ہیں اور کیا بات کرتے ہیں ۔کیا وہ نوازشریف کے بعد شہبازشریف کی بھی عظمت کے گن گاتے ہیں اور انہیں ’’Terrific Guy‘‘بلاتے ہیں یا پھر طفلان انقلاب کی خواہشات کے مطابق عمران خان کو جیل سے آزاد کرواتے ہیں۔ویسے اگر کال نہ بھی آئے تو میری شفاعت علی سے گزارش ہے کہ وہی ٹرمپ بن کر کال کرلیں اور قیدی نمبر 804کی رہائی کا مطالبہ کر ڈالیں۔