• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20 اکتوبر کا دن پاکستان اور میرے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دن میں قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے پوری رات پارلیمنٹ میں تاریخی قانون سازی اور 26آئینی ترمیم کے عمل میں شریک رہا جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے ایوان میں فجر کے وقت 26ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کی رو سے عدلیہ میں اصلاحات کے علاوہ آئین میں یکم جنوری 2028ءسے پاکستان میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کرنا تھا جو ملکی اسلامی بینکنگ نظام کے حوالے سے ایک اہم ترین ترمیم ہے۔ اس آئینی ترمیم میں بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے اہم کردار ادا کیا جن کے درمیان ہونے والے مذاکرات مجھے اس دور میں لے گئے جب بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان 1973ءمیں ملک میں آئین سازی کا عمل شروع کیا اور اکثریت ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی قوتوں سے مذاکرات کئے جس میں وزیراعظم ذوالفقار بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اُس وقت آئین پاکستان میں یہ درج کیا گیا تھا کہ ملک سے سود کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے گا مگر کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی تھی اور بعد میں اس پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ 14مئی 2006ءکو لندن میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان بینظیر بھٹو، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ملٹری رول کے جواب میں میثاق جمہوریت اور آئین پر مکمل عملدرآمد کے ایک معاہدے ’’چارٹر آف ڈیمو کریسی‘‘ پر دستخط کئے۔ آج 51 سال بعد ذوالفقار بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو اور مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمن نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات کے علاوہ ملک سے سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ اس سے پہلے وفاقی شرعی عدالت نے سودی بینکاری کی مدت میں 2027ءتک توسیع کی تھی لیکن اب 2028ءکا سورج جب طلوع ہوگا تو 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک سے سودی بینکاری کا خاتمہ ہوجانا چاہئے۔ پاکستان میں 1990ء تک سودی بینکاری کا کوئی متبادل نظام نہیں تھا۔ 2002ءمیں میزان بینک نے پہلا اسلامی بینکنگ لائسنس حاصل کیا۔ اس وقت پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں 22بینکوں میں 6مکمل اسلامی بینک ہیں جس میں میزان بینک، بینک اسلامی، البرکہ بینک، دبئی اسلامک بینک، MCB اسلامک بینک اور 2023ء میں مکمل اسلامک بینکنگ پر منتقل ہونیوالا فیصل بینک شامل ہے جس کو مکمل اسلامک بینکنگ میں منتقلی کے عمل میں 8سال لگے۔ اس وقت ملک میں 16بینک روایتی سودی بینکاری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں مجموعی بینکنگ ڈپازٹس میں اسلامک بینکنگ کا حصہ 22فیصد (5160 ارب روپے)، اثاثوں میں 20فیصد (7229 ارب روپے) اور قرضے دینے میں شیئر 25 فیصد (3113 ارب روپے) ہے جبکہ ملک میں اسلامک بینکوں کا نیٹ ورک 4534برانچوں تک پہنچ گیا ہے۔ فیصل بینک، میزان بینک کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا اسلامک بینک بن گیا ہے جس کی ملک بھر میں 700 سے زائد برانچیں ہیں۔ فیصل بینک کی سودی بینکاری سے اسلامک بینکنگ میں منتقلی بینکنگ کی تاریخ میں ایک بڑی منتقلی ہے جس پر میں فیصل بینک کے صدر اور CEO یوسف حسین اور انکی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسکے علاوہ سمٹ بینک نے بھی بینک کو مکمل اسلامی بینک میں منتقل کرنے کیلئے اپنا نام بدل کر ’’بینک مکرمہ‘‘ رکھا ہے جبکہ زرعی ترقیاتی بینک بھی اسلامک بینکنگ پر منتقلی پر غور کر رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اسلامک بینکنگ نہایت تیزی سے فروغ پارہا ہے جسکا بڑا کریڈٹ گورنر اسٹیٹ بینک اور انکی ٹیم کو جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں 74فیصد افراد جو روایتی بینکنگ سے منسلک ہیں، نے شریعہ یعنی اسلامک بینکنگ پر منتقلی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بزنس کو ملک اور بیرون ملک فروغ دینے میں جب ہمارا گروپ روایتی سودی بینکنگ نظام میں بری طرح جکڑتا گیا اور ذاتی سرمایہ کاری کیساتھ بینکوں کے اربوں روپے کے سودی قرضے کاروبار کا حصہ بنتے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے سودی کاروبار کو فروغ دے کر دراصل آخرت کیلئے جہنم کمارہا ہوں اور یہ جاننے کے بعد کہ سودی بینکاری اور سودی کاروبار اللّٰہ سے جنگ ہے، کے احساس ندامت پر میں نے 2014ء میں اللّٰہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے نیت کی کہ انشاء اللّٰہ بہت جلد بیگ گروپ سودی بینکاری سے نجات حاصل کرلے گا، چاہے اس کیلئے ہمیں اپنے اثاثے ہی کیوں نہ فروخت کرنا پڑیں اور پھر 4 مہینے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے سچی نیت اور دعائوں کی بدولت مجھے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کو اربوں روپے کے سودی قرضوں سے نجات دلادی۔ میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے وہ تمام کاروباری دوست جنہوں نے سودی بینکاری سے نجات حاصل کرکے اسلامی بینکاری نظام اپنایا، اللّٰہ تعالیٰ نے اُنکے رزق اور کاروبار میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ برکت عطا فرمائی ہے۔ پاکستان کی معاشی اور مالی صورتحال کا انحصار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں پر ہے جو سودی بینکاری پر مبنی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان عالمی مالیاتی اداروں کو ایک متبادل نظام پیش کرے، نہیں تو ملک سودی اور غیر سودی نظاموں میں الجھا رہے گا۔

تازہ ترین