• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کے پاکستان کے ہنگامی دورے کو اس زاویے سے دیکھا جارہا ہے کہ ستمبر میں سات ارب ڈالر آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری اور اسلام آباد کے پہلی قسط وصول کرنے کے بعد بعض اہداف کی تکمیل میں درپیش مشکلات کا حل تلاش کیا جاسکے۔ پیر کی شام شروع ہونیوالے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے ناتھن پورٹر کی سربراہی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کے معاونین سے ٹیکنیکل سطح پر بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق 11سے15نومبر تک اسلام آباد میں قیام کیلئے آنیوالے مشن سے مذاکرات میں ایف بی آر کے اہداف کو پورا کرنے، نئے ٹیکس اقدامات، آئی پی پیز مذاکرات، توانائی سیکٹر کے گردشی قرضے سمیت کئی امور کا تفصیلی جائزہ لیا جارہا ہے۔ پاکستان نے بتایا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس مشینری نے ریٹیلرز تھوک فروشوں اور ڈسٹری بیوٹرز سے 11ارب روپے جمع کئے تاہم تاجر دوست اسکیم (TDS) کے بارے میں توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ جائزے کے دوران آئی ایم ایف کی طرف سے دو اختیارات تجویز کئے گئے : یا تو ایک منی بجٹ کے ذریعے عوام سے ٹیکس وصول کرکے 89ارب روپے کے محصولاتی خسارے کو پورا کیا جائے یا غیر محدود اخراجات کم کرنے کا قابل عمل منصوبہ تیار کیا جائے۔ دونوں شرائط بظاہر مشکل ہیں مگر اخلاص سے کام کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے تنخواہ دار طبقے اور صنعتوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کا نسخہ دہرانے کی بجائے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنے کی تدابیر کی جائیں جبکہ بے قابو اخراجات کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اللّے تللّوں کے کلچر کو دفن کیا جائے اور ایسے اخراجات سے گریز کیا جائے جن پر عوام میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے اقتصادی منیجرز کے پاس ایسا لائحہ عمل موجود ہونا چاہئے جس پر وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرسکیں اور اپنے عوام میں بھی اعتماد کی کیفیت بڑھانے کے قابل ہوں۔

تازہ ترین