(سینئر صحافی اور تحریک پاکستان کے محقق منیر احمد منیر کو بعض تاریخی تصورات سے اختلاف ہے۔ آزادیٔ اظہار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا مضمون شائع کیا جا رہا ہے اس حوالے سے اگر کوئی اور لکھنا چاہے تو اس کیلئے جنگ کے ادارتی صفحات حاضر ہیں۔ ادارہ)
روزنامہ جنگ میں3جولائی 2016 کو ڈاکٹر صفدر محمود کا کالم صبح بخیر بعنوان’’ستائیسویں رمضان اور قیامِ پاکستان‘‘شائع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان 14 اور 15اگست کی نصف شب دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اور اس کا پہلا یوم ِ آزادی 15اگست 1947ء کو منایا گیا۔ اس روز ستائیسویں رمضان تھی۔ جمعۃ المبارک کا دن تھا اور لیلتہ القدر تھی.....ہم 14 اگست کو یومِ آزادی مناتے مناتے ستائیسویں رمضان کو بھول گئے ہیں حالانکہ اُسی روز پاکستان وجود میں آیا‘‘۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اپنے مضمون کا اختتام آخری وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن کی پریس کانفرنس پر کرتے ہیں کہ ’’اس نے پریس کانفرنس کے آخری سوال کے دباؤ کے جواب میں فوراً اعلان کر دیا:’’ہندوستان کو انتقالِ اقتدار 15اگست 1947ء کو کر دیا جائے گا‘‘۔ اسے اندازہ تھا نہ برطانوی حکمرانوں کو علم تھا کہ 15اگست مسلمانوں کے 27ویں رمضا ن کا مبارک دن ہے۔ اور 14،15 کی شب، شبِ قدر ہے۔ یہ قدرت کا فیصلہ تھا۔ اور یقین رکھیے کہ قدرت کے فیصلے بلاوجہ نہیں ہوتے‘‘۔
ڈاکٹرصاحب واحد شخص نہیں، ہم ایک مدت سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان 27ویں رمضان کو وجود میں آیا۔لیلتہ القدر، شبِ قدر۔ اس سلسلے میں مختلف اطراف سے 27ویں رمضان سرکاری سطح پر بطور یومِ قیام پاکستان منانے کا مطالبہ بھی جاری رہا۔ کئی لوگ اور تنظیمیں اس روز باقاعدہ یومِ پاکستان مناتی بھی ہیں۔ ان میں اِن دنوں نظریۂ پاکستان فاؤنڈیشن پیش پیش ہے۔حالانکہ بنیادی طور پر یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے اور اس کے پاس ریسرچ سکالرز بھی ہیں۔ لیکن ان سے بھی مسلسل بھول ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ پاکستان قطعاً 27ویں رمضان کو وجود میں نہ آیا تھا۔ 19جولائی 1947ء کو پہلا روزہ تھا۔ اس حساب سے 27 واں روزہ 14 اگست 1947ء کو تھا۔ اس طرح 27 ویں رمضان جسے لیلتہ القدر اور شبِ قدر کہتے ہیں وہ آئی 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب۔ جبکہ پاکستان وجود میں آیا، جسے ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنے مضمون میں تسلیم کیا ہے، 14 اور 15اگست 1947ء کی درمیانی شب رات 12بج کر ایک سیکنڈ پر۔ اور یہ 27ویں اور 28ویں روزے کی درمیانی شب تھی۔ اس لیے یہ لیلتہ القدر نہ تھی۔جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان نزولِ قرآن کی رات کو وجود میں آیا تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت بھی اسی رات وجود میں آیا تھا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سب دن اللہ کے ہیں۔ حیرت تو مجھے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے درویش استاد سے ہوئی جس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:’’میرے ایک درویش استاد کہا کرتے تھے کہ ستائیس ویں رمضان لیلتہ القدرکو معرض وجود میں آنے والے پاکستان پر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا سایہ ہے۔ جب ہم پوچھتے کہ پھر 1971ء میں پاکستان کیوں ٹوٹ گیا تو جواب ملتا کہ وہ ہماری اپنی غلطیوں اور بدنیتی کی سزا تھی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے درویش استاد کی حسابی اور مادی معلومات بھی ناقص، روحانی قوت بھی گئی گزری۔ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ پاکستان 27 ویں کی شب قطعاً وجود میں نہ آیا تھا۔ یہ 28ویں کی شب دنیا کے نقشے پر ابھرتا ہے۔دوسرے ان کا یہ ارشاد کہ پاکستان ہماری غلطیوں سے ٹوٹا اور یہ بدنیتی کی سزا تھی۔ یہ نہ ہماری غلطیوں سے ٹوٹا اور نہ یہ بدنیتی کی سزا تھی۔ یہ ٹوٹا اس وقت کی دونوں سپرپاورز سوویت یونین اور امریکہ کے اس امر پر گاڑھے اتفاق کے سبب۔ اسرائیلی میڈیا اور بھارتی افواج تو ان دونوں سپر پاورز کی آلۂ کار تھیں۔ یہ بتائیں عراق، افغانستان اور لیبیا کا جو حشر دنیاکی واحد بالادست سپر پاور امریکا نے کیا ہے وہ کس کی غلطیاں تھیں اور کس کی بدنیتی تھی؟ اور جوحال ہی میں مسجد نبویؐ کے باہر خودکش حملہ ہوا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹرصفدر محمود صاحب محقق ہیں اس لیے ان کا حوصلہ وسیع ہونا چاہیے۔ محقق شواہد، ریکارڈ اور حقائق کے آگے اپنا قلم نگوں کرتا ہے نہ کہ مفروضات اور تمناؤں کے آگے۔