اخبار سے خبر تو اب غائب ہو گئی۔ کالم کے نام پر خامہ فرسائی کے اطوار بھی چراغ حسن حسرت کے لفظوں میں ’کثرت استعمال‘ سے متروک ہو رہے ہیں۔ فکاہیہ کالموں میں ایک عطا الحق قاسمی اگلے وقتوں کی نشانی بچے ہیں۔ رپورٹنگ سے کالم کا رخ کرنے والے خبر کو کالم کا لبادہ پہناتے ہیں مگر صیغہ متکلم کی خود آرائی اور مبینہ ذرائع کے دام میں الجھ جاتے ہیں۔ کچھ ماضی کے آثار ہیں جنہیں شاید نظریاتی سیاست کے ارتحال کی خبر نہیں پہنچی چنانچہ نظریاتی آموختے کا مردہ خراب کرتے ہیں۔ کچھ اصحاب نظر نے کالم کو یاد نگاری کی عبا پہنا دی ہے۔ بیشتر کالم نگار کسی سیاسی پنڈال یا تجارتی کمپنی کے نقارچی ہیں۔ کچھ مہربان تو اپنی ہی ذات والا تبار کا اشتہار ہیں۔ برادرم سہیل وڑائچ نے شہر میں سب سے الگ دکان کھولی ہے لیکن انکے نایاب مال کا بہت شہرہ ہے ۔ درویش نے انہیں اسنائپر کالمسٹ کا خطاب دے رکھا ہے۔ مہینوں سانس روکے شست باندھے مچان پر بیٹھے رہتے ہیں اور پھر جو لبلبی دباتے ہیں تو ان کا شکار لوٹنیاں کھاتا ان کے قدموں میں آ گرتا ہے۔ حالیہ برسوں کے تین کالم تو مجھے نوک زباں ہیں۔ 22جون 2017 کو ’دی پارٹی از اوور؟‘ کے نام سے لکھے کالم میں آمدہ مہینوں کے اسکرپٹ کی خبر سے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا تھا۔ 22 جنوری 2019کو ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘ کے عنوان سے لکھا گیا کالم گویا پتھر پر لکیر ہو گیا۔ رواں برس 7 فروری کو ’بنگلادیش ماڈل آ رہا ہے‘ کے عنوان سے قلم اٹھایا تھا جو اب حالیہ آئینی ترمیم اور قانون سازی کے بعد درست ثابت ہوا۔یہاں ایک گریز سہیل صاحب کے اسلوب بیاں کے ضمن میں چنداں بے محل نہیں ہو گا۔ مغربی ادب میں clef۔à۔romanکی اصطلاح معروف ہے۔ لکھنے والے حقیقی زندگی کے کرداروں کو فکشن کا ایسا مہین لبادہ اوڑھا دیتے ہیں کہ ’صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو‘۔ہمارے ہاں اس کی ایک ابتدائی صورت علامہ عبدالحلیم شرر نے ’اسرار دربار حرام پور‘ میں پیش کی تھی۔ ریاست سنہ 1912 یا 1913 میں عبدالحلیم شرر رام پور کے نواب حامد علی خان سے کبیدہ خاطر ہو گئے تھے۔ عالم برہمی میں قلم اٹھایا اور اس مختصر سے ناول میں نواب موصوف کی نجی زندگی کی ایسی پردہ دری کی کہ تسمہ لگا نہیں چھوڑا۔ نواب صاحب کو پہلے ایڈیشن کے تمام نسخے خرید کر تلف کروانا پڑے۔ بیسویں صدی کے وسط میں سیمون دی بوائر نے The Mandarins لکھا تو چینی اساطیر کے پردے میں اپنے رفیق سفر سارتر اور اس کے دوست البیر کامیو سمیت خود اپنی ذات کے بخیے بھی ادھیڑ ڈالے۔ منٹو نے اپنے افسانے ’اوپر نیچے درمیان‘ میں ایک ہم عصر صاحب اقتدار کی عائلی زندگی پر طنز کیا۔ پاکستان میں کسے اس کی تاب ہو سکتی تھی۔ غریب منٹو کو اس بے ضرر سی تحریر پر عدالت سے سزا سنائی گئی۔ حالیہ برسوں میں قلم پر احتساب بہت کم ظرف ہوا تو سہیل صاحب نے اسی روایت سے فائدہ اُٹھاکر کبھی فرضی خطوط لکھے تو کبھی افراد یا اداروں کو صفاتی نام بخش دیے۔ حالیہ کالم میں البتہ خلاف معمول کھل کر مستقبل کی منظر کشی کی ہے۔ مجھ سیاہ بخت کو اسی سے اختلاف ہے۔
سہیل صاحب کی رائے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ کا سیاسی مستقبل امید افزا نہیں۔ ان کے خیال میں ان دونوں جماعتوں میں تنظیم اور بیانیہ مفقود ہیں۔ قیادت عوام تک براہ راست رسائی سے گریزاں ہے نیز یہ کہ تحریک انصاف ان دونوں صوبوں میں مقبول ترین جماعت ہے۔ تاہم سہیل صاحب بھی مانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں حکومت چلانے کی صلاحیت ہے اور نہ اس کی کوئی تنظیم ہے۔ دوسری طرف ’مقتدرہ‘ اپنے راستے کی بیشتر رکاوٹیں دور کرچکی ہے۔ اب مقتدرہ کے لیے واحد سوال یہ ہے کہ سیاسی خلا کیسے پْر کیا جائے۔ برادرم سہیل سمجھتے ہیں کہ مقتدرہ مستقبل قریب میں کوئی نئی سیاسی قوت میدان میں اتارے گی۔ بندہ ناچیز کی رائے میں پاکستان کے لیے تشویش کا اہم ترین زاویہ ہی یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عمل قریب قریب مفلوج ہو چکا ہے اور مقتدرہ بے حد مضبوط ہو چکی ہے۔ سیاسی قوتوں کی یہ کمزوری بذات خود کوئی نیا مظہر نہیں البتہ وقت کے ساتھ اس کے تار و پود قطعی بے جان ہو چکے ہیں۔ اس انحطاط کی جڑیں 1945ء تک جاتی ہیں۔ تب برطانوی حکمرانوں کی شہ پر سیاسی پناہ گیر ٹھیک اسی طرح مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے جیسے 2011ء کے موسم خزاں میں تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے۔ پاکستان کی بانی جماعت کی یہ کمزوری ہی آزادی کے بعد سرکاری اہلکاروں اور موقع پرست سیاسی اشرافیہ کے اس گٹھ جوڑ کا حصہ بنی جس میں بعد ازاں مذہبی قوتوں کو مفید مطلب سمجھ کر شامل کیا گیا۔ ہم نے اس دوران ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، قومی اتحاد، آئی جے آئی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو نادیدہ چھتر چھایا تلے بنتے اور ناکام ہوتے دیکھا۔ یہاں فرقہ ورانہ جماعتوں اور متشدد گروہوں کا بوجوہ ذکر نہیں کیا جا رہا۔ حقیقی جمہوری قوتوں کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلا گیا۔ نتیجہ یہ کہ سیاسی قوتیں ہی بے وقعت نہیں ہوئیں، سیاسی عمل بھی اپنی نامیاتی توانائی سے محروم ہو گیا۔معیشت کے تختے اکھڑ گئے۔ مقتدرہ کا ہمہ جہت اختیار ہمارے لیے نیا نہیں اور ہم اس کی حرکیات سے خوب آشنا ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ مقتدرہ کی ہمہ گیر بالادستی کے بطن سے ناگزیر طور پر بحران جنم لیتا ہے اور مقتدرہ کے خود کاشتہ پودے تاریخ کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایک جمہوری شہری ہوتے ہوئے درویش کی رائے ہے کہ حقیقی سیاسی استحکام اور پائیدار معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ کسی نئے سیاسی تجربے سے اجتناب کیا جائے۔ شفاف جمہوری عمل کو دستور کے دائرے میں اپنا کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی تجربے کرنا نہ تو غیر سیاسی قوتوں کا دستوری استحقاق ہے، نہ انہیں اس کی تربیت ہے اور نہ وہ پاکستان جیسی پیچیدہ سیاسی روایت کو اپنے تابع رکھنے کی اہلیت سے بہرہ مند ہیں۔ برادرم سہیل باخبر صحافی ہیں لیکن ان کی خبر ایک پرانے تجربے کے ناکام اعادے کا اشارہ دے رہی ہے۔