گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے سرکاری دورے میں دوحہ میں قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات کی اور قطری سرمایہ کاروں کو پاکستان میں توانائی، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور ہنرمند افراد قطر بھیجنے پر بات کی۔ اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے مجھے دوحہ میں 4سے 7نومبر کو ایشین پارلیمانی اسمبلی کی بجٹ اور پلاننگ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نامزد کیا جبکہ سینیٹ سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کو نامزد کیا گیا۔ ایشین پارلیمانی اسمبلی میں پاکستان کے علاوہ روس، چین، بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، کوریا، سعودی عرب، یو اے ای، کویت، بحرین، قطر، ترکی اور ایران سمیت 43 ممالک کی پارلیمنٹ ممبرز ہیں اور آبادی کے حساب سے انہیں ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔ میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں نے اتنے اہم فورم میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ سرکاری مہمان ہونے کے ناطے قطر پہنچنے پر ہمیں پاکستانی سفارتخانے اور قطر حکومت کی جانب سے خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔
قطر خلیج میں سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشت ہے جس کے پاس روس اور ایران کے بعد دنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں جن سے وہ مائع قدرتی گیس (LNG) پیدا کرتا ہے۔ 30 لاکھ سے زائد آبادی اور 12000کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر مشتمل یہ چھوٹی سی خلیجی ریاست ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک بستی تھی لیکن 1950ء میں تیل کی دریافت کے بعد قطر کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔ 2003-04 ءمیں قطرکیGDP 3.7 فیصد سے بڑھ کر 19.2 فیصد سالانہ ہوگئی۔ 2006ء میں قطر کی معیشت میں 26فیصد اضافہ ہوا اور 2021ء میں قطر کی فی کس پیداوار 61276ڈالر ہوگئی۔ اگر ہم قطر کی قوت خرید کو بھی مدنظر رکھیں تو یہ 93521ڈالر فی کس تک پہنچ جاتی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ قطر نے 2022ء کے فٹبال ورلڈ کپ پر تقریباً 220ارب ڈالر خرچ کئے جو تاریخ کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران 8 اسٹیڈیم، ایک نیا ہوائی اڈہ، میٹرو لائن اور درجنوں فائیو اسٹار ہوٹلز تعمیر کئے گئے۔ اِنہی ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل Fairmont میں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ قطر کی مجموعی آبادی 30لاکھ ہے جس میں مقامی افراد کی تعداد صرف 10فیصد یعنی 3لاکھ کے لگ بھگ ہے، باقی غیر ملکی ہیں جن میں 3لاکھ پاکستانی شامل ہیں جو سالانہ ایک ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیج رہے ہیں۔ جون 2019ء میں امیر قطر شیخ تمیم بن حماد التھانی نے پاکستان کے دورے پر 2.5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور ایک لاکھ ہنرمند پاکستانی ورکرز کو ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ 2023-24ء میں پاکستان اور قطر کی باہمی تجارت 3.7ارب ڈالر تھی جس میں قطر سے امپورٹ 3.5ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 158ملین ڈالر ہے۔ قطر سے امپورٹ میں LNG اور ایکسپورٹس میں چاول، گوشت، فوڈ پروڈکٹس اور سی فوڈ شامل ہیں۔ پاکستان اور خلیجی ممالک نے ستمبر 2023 ءمیں سرمایہ کاری معاہدے پر سعودی دارالحکومت ریاض میں دستخط کئے تھے تاکہ آزاد تجارتی معاہدے کیلئے راہ ہموار ہوسکے۔ پاکستان اور قطر کے مابین مضبوط دفاعی تعلقات ہیں اور پاک فوج کے 700سے زائد افسران اور اہلکار قطر میں تعینات ہیں۔ پاکستان ایئر فورس قطر میں قائم PAF بیس Aludeid میں قطری ایئرفورس کو جدید ٹریننگ فراہم کررہی ہے۔ دو روزہ ایشین پارلیمانی اجلاس میں بھارت کے علاوہ ایشیا کے تمام ممالک نے شرکت کی۔ کانفرنس کا اہم ایجنڈا APA بجٹ کی منظوری دینا تھی۔ ممبر ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہر ملک بجٹ میں برابر کا حصہ دیگا۔ بجٹ مسودے کی منظوری کے بعد ہمیں قطر کی پارلیمنٹ کے دورے پر لیجایا گیا۔ قطر پارلیمنٹ کے ممبران کی مجموعی تعداد 45 ہے جس میں 30ممبران منتخب اور 15ممبران نامزد کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پارلیمنٹ میں ریفرنڈم کے ذریعے ممبران کی تعداد بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دورے کے دوران ہمیں قطر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا دورہ بھی کرایا گیا اور اسپیکر سے ملاقات کے دوران مجھے مہمان پارلیمنٹرین کی ترجمانی کا اعزاز ملا۔ اسکے بعد قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں سفیر محمد اعجاز اور ڈپٹی ہیڈ آف مشن مصطفیٰ ربانی سے ملاقات ہوئی جس میں وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ قطر، دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان روانگی سے پہلے میں نے قطر میں تعینات کمرشل قونصلر سیرین اسد سے درخواست کی تھی کہ میری میٹنگ قطر میں مقیم ممتاز بزنس مینوں سے کرائی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستانی سفارتخانے نے قطر بزنس کونسل کی صدر صوبیہ سرمد اور دیگر عہدیداران کیساتھ پلازہ ہوٹل دوحہ میں ایک اہم میٹنگ کرائی جس میں پیٹرولیم، آئی ٹی، کنسٹرکشن، فوڈ پروڈکٹ، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شامل تھے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قطر میں مقیم ہیں۔ ان سب میں پاکستان کیلئے کچھ کرنیکا جذبہ نظر آیا اور انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں حائل مشکلات کا ذکر بھی کیا جن کو میں متعلقہ وزراء سے ملاقات کرکے حل کرانے کی کوشش کرونگا۔ ان ملاقاتوں سے معلوم ہوا کہ قطر نے بھارت پر کچھ پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو قطر ایکسپورٹ کے نئے مواقع مل سکتے ہیں اور ہمیں اس پر سنجیدگی پر کام کرنا ہوگا۔