• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

26 ویں ترمیم کے نکلے فوری نتائج نے مکمل ثابت کر دیا کہ 47والی پارلیمان کا ’’کمال جرات و سرعت‘‘سے اٹھایا یہ آئین شکن اقدام بنیادی ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر ملکی داخلی استحکام کے لئے بڑے خسارے کاسبب بنے گا،یہ بن گیا۔ پہلی نشاندہی حکمران اتحاد میں پی ڈی ایم کے بڑے سرخیل بلاول بھٹو نے کی جنہوں نے ترمیم منظور کرانے کے لئے رات دن ایک کر دیا تھا اپوزیشن کے نزدیک آئین کو روندنے کا یہ کام جس دیدہ دلیری اور تگ ودو سے ہوا اس کےلئے بلاولی شباب ہی درکار تھا مانتے چاہتے بھی یہ کارمحال یا سیاسی مہم جوئی جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف جیسے لندنی میثاق جمہوریت کے اکابرین کےبس میں نہ تھا لیکن راج و اقتدار سے کوسوں دور ہم جیسے فقیروں اور گلی محلے کے ووٹروں کی سدا کسی نے نہ سنی کہ متفقہ دستور کو نہ چھیڑا جائے کہ اب مسلسل مضطرب پاکستان میں فقط آئین ہی وہ متاع عزیز رہ گیا ہے جو بطور مقدم سماجی معاہدہ 51برس قبل تمام ملکی پارلیمانی بڑی چھوٹی عوامی قوتوں کے کامل اتفاق سے تشکیل پایا تھا۔

یوں یہ اتحاد و اتفاق پاکستان کی جیتی جاگتی تادم ضمانت و علامت تو تھا اس کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود محفوظ مندرجات کے حوالےسے پاکستان کے ایک آئینی و جمہوری ریاست ہونے کا بھرم باقی یہ ہی تھا جس کی بحالی کے لئے 27ویں ترمیم بحال ہو گی، آئین کی سنجیدہ خلاف ورزیوں کا کھلواڑ خود منجانب سرکار و دربار سے جاری رہا تاریخی تناظر میں حقیقت یہی ہے کہ 8فروری کے تاریخ ساز عام انتخابات میں انتہا ہو گئی پاکستانی قوت اخوت عوام کو کچل کر خلاف آئین حکومت کی تشکیل فارم 45کی بجائے خلاف آئین اولیگارکی (مافیہ راج) کی من مرضی کے مطابق فارم 47کے مسخ شدہ ڈیٹا سے تشکیل دیکر مسلط کی جسے آج انتظامیہ کی مداخلت سے آزاد سپریم کورٹ برداشت ہے نہ ملک میں زمانے کے مطابق کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی زمانے کے تقاضوں کے مطابق کمال کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی اختیاریت و استعمال اب تو اس نعمت عامہ کو بھی شریعت کی تشریح کے سرکاری ادارے کے فتوے سے روکا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ سوموٹو کا اختیار متنازعہ ترین ترمیم سے کھو بیٹھی۔

’’آئین نو ‘‘ میں آرٹیفشل انٹیلی جنس بیسڈ اسٹڈی کی روشنی میں نظام انصاف و قانون کے پریکٹسنگ نالج سے حاصل جواب کی روشنی میں فوری واضح اور بروقت انتباہ کیا گیا کہ آئین سے اتنی بڑی چھیڑ چھاڑ بہ شکل 26ویںترمیم سے سپریم کورٹ کی جو تشکیل نوکی گئی ہے اس پر ’’فاتحِ ترمیم‘‘ نے بلاول ہائوس کی میڈیا ٹاک میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے کہا کہ ہمیں انصاف کے سب سے بڑے ادارے (سپریم کورٹ ) میں برابر کی نمائندگی چاہئے یعنی حکومت یا ن لیگ کے برابر یہاں تو یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ فارم 45والی بزور بنائی گئی پارلیمانی اپوزیشن ،تحریک انصاف کو بھی کیوں نہیں؟ اور حصہ بقدر جثہ دوسری پارلیمانی جماعتوں کو کیوں نہیں ؟ اورتو اور تبدیل شدہ کورٹ کا ابتدائی منفی نتیجہ نکلنے پر حالت ابتری میں ترمیم منظور کرانے کے سرخیل بلاول نے انکشاف کیا کہ ترمیم سے پہلے ن لیگ اور پی پی کی ترمیم کے حوالے سے برابر کی بات ہوئی تھی۔

انہوں نے واضح کیا نہیں کہ برابری کا کیا مطلب ہے ؟مکمل واضح ہے کہ مقتدر ہونے کے حوالے سے ترمیم کے جو ثمرات حاصل ہوں گے وہ برابر تقسیم ہوں گے (توبہ توبہ ترمیمی آئین میں اتنا بڑا سیاسی کھلواڑ) لیکن معاہدے کے مطابق ایسا نہیں ہوا ۔اس فقرے کے فوری بعد انہوں نےسپریم کورٹ میں دیہی سندھ سے ججز کی نمائندگی نہ ہونے کا سوال اٹھایا یا رونا رویا حالانکہ کانسٹی ٹیوشنل لا کی باڈی آف نالج اور اصلی آئین 73کے مطابق بھی علاقائی بنیاد پر ججز کی نمائندگی پر مکمل خاموش ہے متعلقہ ذخیرہ علم کا تو واضح جواب ہے کہ ججز کی تقرری اختیار کئے گئے مخصوص شرائط تقرری (ٹرمز آف ریفرنس ) کے مطابق ہونی چاہئے جس میں جج متعلقہ پیشے کی تعلیم کا معیار اور وژن تجربہ اور بطور جج اس کی پیشہ ورانہ برادری اور معاشرے میں ساکھ و اعتبار سب سے بنیادی اور غالب ہونے چاہئیں ۔جبکہ سپریم کورٹ کے ججز تو دو دھڑوں میں تقسیم ہو کر پہلے ہی سیاسی و آئینی جاری بحران میں معاشرے کی اپنی تقسیم کے حوالے سے بنیادی ساکھ اور اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ پہلے اس کی جڑ ریٹائرہوئے چیف جسٹس کو بتایا جا رہا تھا اب 26ویںترمیم میں ’’سینئر موسٹ‘‘کے روایتی اور قبول (ایٹ لارج) کو مائنس کرنے سے عدالت عظمیٰ کےتمام ججز پر عوامی اعتماد کا بنیادی درجہ بھی بری طرح ڈسٹرب ہو گیا ہے اور تیسرے سینئر جج کی بطور چیف جسٹس تقرری کو بذریعہ 26ویںترمیم سیاسی کھیل کا حصہ سمجھا جا رہا ہے کم از کم بھاری اکثریت کا زاویہ نگاہ تو یہ ہی ہے اس اکثریت میں اضافہ بلاول میاں اور ان کے استاد گرامی مولانا صاحب بھی شامل احتجاج و اضطراب کا ہے ۔شاگرد خصوصی نے تو وفاقی آئینی بینچ میں سندھ کے لئے الگ طریقہ اختیار کرنے کی شکایت بھی کی ہے۔

سوال اٹھا دیا ہے کہ ایک ملک میں دو نظام چل سکتے ہیں ؟ واضح رہے ’’آئین نو‘‘ میں آئین پر مکمل عملداری اور سب شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ کی اولین اور مسلسل قومی ضرورت کی تواتر سے نشاندہی کے باوجود دستور کے ادھورے اور مطلبی نفاذ اور لاقانونی و دو قانونیت کا رونا دھونا چیخ پکار اور مطالبہ برسوں سے نہیں مخصوص متذکرہ بیانئے کے ساتھ عشروں سے جاری ہے ۔

ہوشیار! ابھی تو 26ویںترمیم کے ابتدائی نتائج ہی نکلے ہیں جس پر بلاول نے حکومتی اتحاد میں بڑی فالٹ لائن کی نشاندہی اپنے تئیں یہ بے نقاب کرکے کردی کہ ترمیم کا ثمر برابر تقسیم ہونے کے غیرعلانیہ معاہدے کی خلاف ورزی آغاز پر ہی ہو گئی ،ابھی تو آغاز عشق ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ایک بار پھر سنو!گلی محلے میں بچوں کے دل ودماغ میں بسے سیاسی ارمان و جذبات کو سمجھو اسے پڑھو اگر پاکستان سنوارنا ہے یہ دبی آواز یقین جانو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارا مسروقہ مینڈیٹ واپس کرکے ہماری حکومت بنائو ،سو مسائل کا ایک ہی حل ہمارا مینڈیٹ ہمیں دو۔ وماعلینا الالبلاغ ۔

تازہ ترین