توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے زیادہ تر بجلی کی چوری ، ترسیل کے ناقص نظام ، ڈسٹری بیوشن سسٹم میں سرایت کرنے والی نااہلیت ، پاور کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو جاری کئے جانے والے بلوں کی پوری رقم وصول کرنے میں ناکامی اور پاور پلانٹس کو ان کی لاگت سے زیادہ ادائیگیوں کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں گردشی قرضے کا دیرینہ ایشو بھاری چیلنج بنا ہوا ہے۔ جولائی 2019تک گردشی قرضے 1200ارب تھے دسمبر 2022میں ان کا بوجھ 2536 ارب اور 2023میں 343ارب روپے ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انرجی سیکٹر نے ملکی معیشت کا بازو مروڑ دیا۔ اب تو گردشی قرضہ ایک گرداب بن کر 2.393ٹریلین روپے تک جا پہنچا ہے۔ حکومت اس پر قابو پانے کیلئے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہے۔ مالی سال 2024-25کیلئے سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) بنا رکھا ہے جس کا مقصد قرضے کے بہائو پر روک لگانا اور تقسیم کار شعبے میں نااہلیوں پر قابو پانا ہے جیسے ڈسکوز کے لائن لاسز اور ناکافی وصولیاں ہیں۔ ٹیرف سبسڈیز اور آپریشنل صلاحیتیں بھی آزمائی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود رواں سال کے آخر تک گردشی قرضے میں 36 ارب روپے اضافہ متوقع ہے۔ یہ ایسا گہرا مسئلہ ہے جو محض اصلاحات سے باآسانی حل نہیں ہو سکتا جس کیلئے ڈونر ایجنسی آئی ایم ایف کی اپنی شرائط بھی ہیں۔ وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کو کثیرالجہتی اسٹرٹیجی پر عملدرآمد کا ٹاسک دیا گیا ہے اب سوال یہ ہے کیا معاشی اصلاحات اس جال کو توڑ پائیں گی؟ ماضی میں بھی مرض کی تشخیص تو ہوتی رہی لیکن اصل علاج نہ ہونے کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں مسائل بڑھتے چلے گئے۔ آج حکومت کی طرف سے ان پر قابو پانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں انہیں تفتیش و تحقیق کی بنیاد پر مزید موثر بنانا چاہئے ورنہ معاشی بحالی کی جدوجہد میں یہ مستقل رکاوٹ بنے رہیں گے۔