• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک بات وقت پر یاد آنا ہماری قومی عادات کا حصہ نہیں۔اسموگ سے نمٹنے کی کوشش سموگ کے موسم میں شروع ہو کر اسی موسم میں ختم ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ دوسرے مسائل کا بھی ہے۔ مجھے اسلام آباد میں رہائش احتیار کیے اب کم و بیش پندرہ برس ہونے کو ہیں۔ مجال ہے جو کبھی اس شہر کی چابیاں رکھنے والوں کو اس شہر کے اصل مسائل کے بارے میں فکر مند پایا ہو۔ فکر مندی تو دور کی بات شہر چلانے والے بابوئوں، جو زیادہ تر ملک کے دوسرے علاقوں سے دو تین سال کیلئے آتے ہیں، کو شہر کے اصل مسائل کے بارے میں لا علم ہی پایا ہے۔

کبھی اسلام آباد کے شہریوں سے کسی نے پوچھا ہے کہ ان کے تین بڑے مسائل کیا ہیں؟ حالیہ خبروں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سرینا ہوٹل کے سامنے ٹریفک کا دو منٹ رکھنا اور نائنتھ ایونیو پر کار سواروں کا چند منٹ کا انتظار شاید یہاں کے شہریوں کے سب سے بڑے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے ابھی پچھلے ہفتے وزیراعظم صاحب نے تقریباً ساڑھے چار ارب روپے کے دو میگا پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔ سرینا انٹر چینج پروجیکٹ کی لاگت 4.2ارب روپے ہے، اور اسے تین ماہ میں مکمل کرنے کی امید ہے۔ دوسری جانب، نائنتھ ایونیو پر پی ٹی سی ایل چوک انٹر چینج پروجیکٹ کی لاگت 4.1ارب روپے ہے، اور اس کو چار ماہ میں مکمل کرنے کی توقع ہے۔

یہ سب اپنی جگہ اچھے پروجیکٹس سہی لیکن کیا واقعی اسلام آباد کے شہریوں کے یہی مسائل ہیں؟ کبھی اس شہر کے باہر سے آئے برز جمہروں نے مارچ اور اپریل کے دوران شہر کے ہسپتالوں کا دورہ کیا ہے جن کے ایمرجنسی وارڈز الرجی کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں؟ جس کی وجہ باہرسے کسی بیورو کریٹ کے شوق کے خاطر منگوائے پیپر ملبری کے درخت ہیں۔ کم و بیش چالیس سال ہونے کو آئے۔ بہار کے موسم میں یہاں کے عوام درخت منگوانے والوں کو ’’دعاؤں‘‘ میں یاد کرتےہیں۔ حل کیا ہے؟ یہی کہ ان درختوں کو کاٹا جائے اور جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔ کتنا حرچہ آئے گا؟ پتہ نہیں۔ کیونکہ یہ باہر سے تشریف لائے بزرجمہروں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں فضائی پولن کی سطح، خصوصاً پیپر ملبری کے پولن کی، دنیا بھر میں بلند ترین سطحوں میں شمار ہوتی ہے۔ پیپر ملبری کا سائنسی نام بروسونٹیا پیپریپرا ہے۔

اسلام آباد میں پولن کی سب سے زیادہ مقدار مارچ اور اپریل میں پائی جاتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں اس کی مقدار 40000پولن ذرات فی مکعب میٹر سے زیادہ ہو جاتی ہے، جو شہریوں میں سانس کی بیماریوں اور الرجی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس سال مارچ میں اسلام آباد میں ہر مکعب میٹر ہوا میں 48351پولن ذرات ریکارڈ کیے گئے۔ ایک ریسرچ کے مطابق اسلام آباد میں ہر سال 30فیصد لوگ پولن الرجی سے متاثر ہوتے ہیں۔

پولن کی ایک خاص مقدار ہے جس سے بڑھ کر وہ خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اگر فی مکعب میٹر پولن کی مقدار 1سے114 کے درمیان ہو تو اسے کم پولن کی شرح سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ مقدار115 سے899تک ہو تو اسے اوسط درجے کا قرار دیا جاتا ہے،900سے1499کے درمیان مقدار کو بلند سمجھا جاتا ہے، اور اگر پولن کی مقدار1500فی مکعب میٹر سے تجاوز کر جائے تو اسے انتہائی بلند سطح تصور کیا جاتا ہے۔

سی ڈی اے کے مطابق پیپر ملبری کو فلپائن سے درآمد کیا گیا تھا اور 1980ءکی دہائی میں دارالحکومت میں متعارف کروایا گیا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس درخت کو 1960ءکی دہائی میں اگایا گیا تھا، تاکہ اسلام آباد کو جلد ہی سرسبز بنادیا جائے۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسے مقامی درخت نہیں تھے جن کو اگا کر شہر کو سرسبز بنایا جا سکتا تھا کہ ہم نے دوسرے ملک سے ایک خطرناک درخت درآمد کر لیا؟

بہرحال، سی ڈی نے پیپر ملبری کو ایف نائن پارک سے کاٹ لیا ہے اور اس کی جگہ مقامی درخت کو سٹرکولیا اور برچائیکٹون اُگا دیے ہیں۔ یہ درخت ماحول دوست ہیں۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا، لیکن اس طرح کے اقدامات پورے شہر میں کیے جانے چاہئیں۔اور پیپر ملبری کے ساتھ ساتھ ان پودوں کو بھی کاٹنا چاہیے جو پولن الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی کٹائی اور ان کی جگہ مقامی اور ماحول دوست درختوں کو اگانے پر اتنا خرچہ نہیں آئے گا جتنا نئے روڈ اور پل کو بنانے پر آتا ہے۔

اسلام آباد کے شہریوں سے پوچھا جائے کہ ان کا دوسرا بڑا مسئلہ کیا ہے تو وہ آپ کو جواب دیں گے کہ پانی کی فراہمی۔حال یہ ہے کہ بعض سیکٹروں میں پانی صرف ٹینکروں سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔کئی سیکٹرز، خاص کر جی 11اور جی13اس مسئلے سے متاثر ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح جو1960ءکی دہائی میں تقریباً 10میٹر گہرائی پر تھی، اب زیادہ ہو کر60 سے 120میٹر تک نیچے جا چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے تقریبا5000ری چارج ویلز (کنویں) درکار ہیں۔ ری چارجنگ کنویں کی قیمت 5000ہزار سےڈیڑھ لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے، اور اس کی قیمت کا تعین کنویں کے سائز کے مطابق کیا جاتا ہے۔ فرض کریں ایک کنویں کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ہو تو ان پانچ ہزار کنوؤں کی قیمت صرف 750ملین روپے بنتی ہے۔ پانی کی قلت ایک مسئلہ ہے لیکن جو پانی ملتا ہے اس کا پینے کے قابل نہ ہونا ایک اور مسئلہ ہے۔

یہ مسائل دوسری طرف، لیکن اسلام آباد کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ ان کا کوئی منتخب نمائندہ ہی نہیں جو ان کے لیے آواز اٹھائے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام آباد میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات2015 میں ہوئے تھے اور ایک مئیر منتخب ہوا تھا جو پانچ سال تک کے لیےتھا۔2021ءسے اب تک اسلام آباد کے رہائشی نمائندے کے بغیر ہیں۔ البتہ بلدیاتی انتخابات کو کرانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ان کو بار بار ملتوی کیا گیا اور اب تک معلوم نہیں ہو رہا کہ یہ انتخابات ہونگے کب۔

آخر میں ایک مسئلہ رہ چکا ہے جس سے اسلام آباد کے رہائشیوں کو شدید تکلیف ملتی ہے۔ جب بھی اسلام آباد میں کوئی احتجاج یا جلسے کی کال دیتا ہے، تو سارا شہر بندکر دیا جاتاہے یا کچھ مقامات، جس کی وجہ سے شہر کے لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت وقت کو اگر جلسے جلوسوں کو روکنا ہے تو ان کے لیے کوئی اور اسٹرٹیجی بنائے، شہر اقتدار کو بند کر کے اس کے شہریوں کو تکلیف میں نہ ڈالے۔اگر اربوں روپے انفراسٹرکچر پر لگائے جا سکتے ہیں، تو شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانے پر کیوں نہیں لگائے جا سکتے؟ خدارا لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے، ان کی صحت، اور زندگیوں کو آسان بنانے کو ترجیح دیں!

تازہ ترین